مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ترکِ معصیت کے لیے ہمت چاہیے کراچی میں خون کے ایک بہت بڑے اسپیشلسٹ ڈاکٹر جو علامہ سید سلیمان ندوی کے عزیزبھی ہوتے ہیں، مجھ سے بیعت ہوگئے اور اﷲ اﷲ کرنے لگے، داڑھی بھی رکھ لی۔ ایک دن کہنے لگے کہ مجھے ہفتہ میں دو بار کالج میں لڑکیوں کو ایک ایک گھنٹہ پڑھانا ہوتا ہے اور اس کے دس ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ ملتے ہیں، لیکن اب بیعت ہونے کے بعد یہ ہورہا ہے کہ جس دن میں ان کو پڑھاتا ہوں اس دن میری تہجد قضا ہوجاتی ہے اور دل میں ظلمت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ لڑکیوں کے پڑھانے کی نحوست ہے،کیوں کہ وہاں نظر کی حفاظت پورے طور پر نہیں ہو پاتی، لہٰذا میں اس پڑھانے کی نوکری سے استعفا دے رہا ہوں کیوں کہ میری ہسپتال کی ملازمت تو ہے ہی اور پڑھانے کی نوکری چھوڑنے سے جو دس ہزار کی کمی ہوگی تو میرے پاس ایک اور فن ہے دواؤں کا وہ شروع کردوں گا اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے عطا فرمائیں گے۔ لیکن اب میں لڑکیوں کو نہیں پڑھا سکتا، لہٰذا انہوں نے استعفا دے دیااور ماشاء اﷲ! بہت آرام سے ہیں، کوئی معاشی تنگی اور رزق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ آدمی ہمت کرے تو کچھ مشکل نہیں۔کم ہمتوں کے لیے بھی اصلاح کا ایک راستہ بہرحال!اس کی ہمت نہ ہو تو ڈاکٹر صاحب سے کہہ دیں کہ جب عورتیں یا لڑکیاں آئیں حتی الامکان نگاہ کی حفاظت کریں اگر نظر ڈالیں تو اُچٹی پچٹی سطحی نظر ڈالیں نگاہ جما کر نہ دیکھیں جیسے ریل میں بیٹھے ہوئے سامنے سے درخت گزرتے جاتے ہیں کہ وہ نظر تو آتے ہیں لیکن آپ ان کی پتیاں نہیں گنتے جیسی نظر ان پر ڈالتے ہیں ایسی ہی سطحی نظر ڈالیں کہ ان کے حسن کا ادراک نہ ہو۔ اور یہ مراقبہ کریں کہ یہ عورت یا لڑکی جو ہے میری ماں ہے بہن ہے یا بیٹی ہے اس کو کیسے بُری نظر سے دیکھوں؟ اس سے کچھ شرم آئے گی۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے ؎ بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب اپنی بیٹی کا خیال آیا تو میں کانپ گیا حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کمزور ولی اﷲ کو کوئی تگڑی