مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اس کو سمجھانے کے لیے میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ جنگل میں اچانک ایک خونخوار شیر سامنے آکر کھڑا ہوجائے اور اسی جنگل میں دنیا میں حُسن میں اوّل نمبر آنے والی لڑکی موجود ہو اور وہ آپ کو دعوت بھی دے رہی ہو کہ ایک نظر مجھے دیکھ لیجیے۔ اس وقت کیا کسی کی ہمت ہوگی کہ اس کو دیکھ لے۔ گناہ کی طاقت تو ہوگی لیکن اس طاقت کو استعمال کرنے کی طاقت نہ ہوگی۔ شیر اللہ تعالیٰ کی ایک ادنیٰ مخلوق ہے جب اس کی ہیبت کا یہ حال ہے تو جس کے دل میں یہ خیال جم جائے کہ خالقِ شیر مجھے دیکھ رہا ہے وہ کیسے گناہ کرسکتا ہے۔کرشمۂ چشمِ سلطاں شناس ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی مثنوی میں ارشاد فرماتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں شہر میں چوریاں زیادہ ہونے لگیں تو چوروں کو پکڑنے کے لیے شاہ نے یہ تدبیر کی کہ شاہی لباس اتار کر چوروں کا سا پھٹا پرانا لباس پہن لیا اور شہر میں گشت کرنے لگے۔ ایک جگہ دیکھا کہ بہت سے چور اکٹھے بیٹھے ہیں۔ بادشاہ بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ چوروں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بادشاہ نے کہا کہ میں بھی تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں ۔ چوروں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی چور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ ماہرینِ فن ہیں کوئی عام چور نہیں ہیں تم اپنا کوئی ہنر بتاؤ ۔ اگر تمہارے اندر کوئی ہنر ہوگا تو تمہیں شریک کریں گے ورنہ نہیں۔بادشاہ نے کہا کہ آپ لوگ کیوں گھبراتے ہیں، آپ لوگوں میں چوری کی جو صفت ، ہنر اور فن ہے میرا ہنر اگر اس سے زیادہ پانا تو مجھے شریک کرنا ورنہ بھگا دینا۔ چوروں نے کہا کہ اچھا اپنا ہنر بتاؤ ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں بعد میں بتاؤں گا پہلے تم لوگ اپنا ہنر بیان کرو۔ ایک چور نے کہا کہ میرے اندر یہ فن ہے کہ میں اونچی سے اونچی دیوار پھاند کر مکان میں داخل ہوجاتا ہوں چاہے بادشاہ کا قلعہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرے نے کہا کہ میری ناک میں یہ خاصیت ہے کہ جہاں خزانہ مدفون ہوتا ہے میں مٹی سونگھ کر بتادیتا ہوں کہ یہاں خزانہ ہے جیسے مجنوں کو خبر نہیں تھی کہ لیلیٰ کی قبر کہاں ہے۔ قبرستان جا کر ہر قبر کو سونگھا، جب لیلیٰ کی قبر کی مٹی سونگھی تو بتادیا کہ لیلی ٰ یہاں ہے ؎