مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
گھونٹ تو ابھی خاک آمیز ہے لیکن اس قربِ ناقص سے جب تم مست ہورہے ہو تو جس دن تم گناہوں کی ہر حرام لذت سے پاک ہوجاؤ گے اور اللہ کے قرب کا پاک وصاف پانی پیو گے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ تم پر کیا کیفیت طاری کرے گا۔ لہٰذا جرعۂ خاک آمیز (مٹی ملے ہوئے پانی کے گھونٹ ) پرقناعت نہ کرو، مجاہدہ کرکے ہر نافرمانی کو چھوڑ دو تو اللہ کے دریائے قرب کا پاک پانی مل جائے گا اور پھر گناہوں کی حرام لذتیں نگاہوں سے گرجائیں گی۔ لیکن یہ باتیں خالی علوم کی نہیں ہیں اعمال کی ہیں۔ علوم کا مزہ جب ہے جب عمل ہو اور عمل کا مزہ جب ہے جب اخلاص ہو۔ لہٰذا ہم عمل شروع کردیں تو قلب کو یہ مزہ مل جائے گا جو اس شعر میں بیان ہوا اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰینسبت مع اللہ کی علامات ارشاد فرمایا کہ ہرن کی ناف میں جب مشک پیدا ہوجاتا ہے تو وہ پھر سوتا نہیں ہے، کھڑے کھڑے اُونگھ لیتا ہے۔ ہر وقت چوکنّا رہتا ہے کہ کہیں کوئی شکاری میرا مشک چھیننے تو نہیں آرہا ہے ۔ اسی طرح جس کو اللہ تعالیٰ اپنا تعلق اور نسبت عطا فرماتے ہیں وہ ہر وقت چوکنّا رہتا ہے۔ کانوں کو گانوں سے بچاتا ہے، آنکھوں کو نمکینوں سے ، حسینوں سے بچاتا ہے ، زبان کو جھوٹ اور غیبت سے بچاتا ہے، ہر لمحۂ حیات کو چوکنّا رکھتا ہے کہ کوئی غلطی ایسی نہ ہوجائے کہ میرا مولیٰ ناراض ہو کر اپنے آفتابِ کرم کا رخ مجھ سے پھیرلے اور میرا نورِ نسبت چھن جائے۔ اور اگر کبھی اس سے خطا ہوجاتی ہے تو دل بے چین ہوجاتا ہے جیسے سورج ڈوبنے سے اندھیرا چھا جاتا ہے تو خالقِ سورج کے ناراض ہونے سے اگر وہ صاحبِ نسبت ہے تو اندھیروں کو محسوس کرلے گا اور فوراً تڑپ جائے گا ۔ اگر نسبت حاصل نہیں، مُردہ دل ہے تو مُردے کو لاکھ جوتے لگاؤ وہ اُف نہیں کرتا۔ گناہوں سے پریشان نہ ہونا یہ دلیل ہے کہ اس کا دل مُردہ ہے۔ بتائیے آپ کسی زندہ آدمی کے سوئی چبھودیں تو اس کو تکلیف ہوگی یا نہیں ؟اور مُردہ کو ؟ پس جس ظالم کو نافرمانی سے کچھ نہیں ہوتا، ویسے ہی کھاتا ہے ویسے ہی چائے پیتا ہے، ویسے ہی ہنستا ہے، ذرا بھی غم اور پریشانی نہیں محسوس کرتا یہ دلیل ہے کہ اس ظالم کا دل مُردہ ہے۔