مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کی آواز آئی تو جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں پہچانتے بھی نہیں تھے ۔یہ ہے حلال نعمت کی سنت کہ حلال نعمت سے بھی اتنا دل نہ لگاؤ کہ نعمت دینے والے کی عبادت میں خلل پیدا ہوجائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی ایسا قوی ایمان عطا ہوا کہ فرماتی ہیں وَلَمْ نَعْرِفْہُہمیں بھی ایسا لگتا تھا کہ اللہ کی عظمت کے سامنے گویا ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانتے تھے۔حدیث کَلِّمِیْنِیْ یَا حُمَیْرَاءُ کی عجیب تشریح ارشاد فرمایا کہ تہجد کی نماز میں ایک ایک رکعت میں پانچ پانچ پارےحضورصلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے تھے اس کے بعد فجر کی اذان سے کچھ پہلے آپ حضرت عائشہ صدیقہ سے گفتگو فرماتے تھے کَلِّمِیْنِیْ یَا حُمَیْرَاءُ؎ اے عائشہ! مجھ سے کچھ باتیں کرو۔یہ گفتگو کس لیے تھی ؟ آہ ! اللہ والوں نے اس راز کو سمجھا ۔ قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ گفتگو عام گفتگو نہیں تھی جو عام میاں بیوی کرتے ہیں بلکہ تہجد کی نماز میں ایک ایک رکعت میں کئی کئی پارے تلاوت کرنے کی وجہ سے آپ کی روحِ مبارک عرشِ اعظم کا طواف کرتی تھی لہٰذا فجر کی نماز کی امامت کے لیے روحِ مبارک کو عرشِ اعظم سے مدینہ شریف کی زمین پر لانے کے لیے آپ گفتگو فرماتے تھے تاکہ آپ کی روحِ مبارک آہستہ آہستہ مسجدِ نبوی میں امامت کے قابل ہوجائے۔ یہ تھا اس گفتگو کا راز۔سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص اوقاتِ قرب لہٰذا ایک مرتبہ تہجد میں کئی کئی پارے تلاوت کرنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک حق تعالیٰ کے قربِ عظیم سے مشرف تھی اس حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ پہنچ گئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! فرمایا:مَنْ اَنْتِ؟ تم کون ہو؟ عر ض کیا:اَنَا عَائِشَۃُ میں عائشہ ہوں۔فرمایا:مَنْ عَائِشَۃُ عائشہ کون ؟ عرض کیا: ------------------------------