مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
بھی نہیں ہوں اور اللہ تعالیٰ کا یہی پسند ہے کہ بندہ اپنے کو کچھ نہ سمجھے۔ اس کے بعد جب دوبارہ حالتِ بسط عطا ہوتی ہے تو قرب وحضوری کا کچھ اور ہی لطف ملتا ہے ۔ یہ فصل برائے وصل ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ لذتِ قرب ووصل کے لیے فصل ضروری ہے۔سلطان ابراہیم ادہمنےآدھی رات کو سلطنت کیوں ترک کی ؟ ارشاد فرمایا کہ سلطان ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے آدھی رات کو جب سلطنتِ بلخ چھوڑی ہے ، مولانا رومی نے اس کا کیا عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ فرماتے ہیں ؎ شاہی و شہزادگی در باختہ از پئے تو در غریبی ساختہ اے اللہ! یہ سلطان شاہی وشہزادگی آپ کی محبت میں ہار گیا اور آپ کے لیے سلطنت کی عزت وجاہ چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی۔ اور فرماتے ہیں ؎ نیم شب دلقے بپوشید وبرفت از میان مملکت بگر یخت تفت آدھی رات کو شاہی لباس اتار کر گدڑی پہن لی اور اپنی مملکت سے نکل گئے اور گدڑی کیوں پہنی ؟ تاکہ کوئی پہچان نہ لے اور ترکِ سلطنت میں دشواری نہ ہو۔ اور آدھی رات کو سلطنت کا سودا کیوں کیا؟ کیوں کہ وہ قبولیت کا وقت ہے تاکہ سلطنتِ بلخ فدا کرنے کا میرا یہ سودا قبول ہوجائے ورنہ اگر قبول نہیں تو سلطنت بھی گئی اور اللہ بھی نہ ملا۔ پس جو لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور دنیا کو ترک کرکے خانقاہوں میں آپڑے ہیں ان کو بھی ہر وقت یہ فکر رہے کہ ہمارا خانقاہ میں رہنا قبول بھی ہے یا نہیں۔ قبولیت کی امید بھی رکھیں اور ڈرتے بھی رہیں اور دعا بھی کریں کہ اے اللہ! آپ قبول فرمالیجیے اور جو اعمال اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے ہیں ہر وقت ان سے بچنے کی فکر کریں۔ گناہوں سے بچنے کی اگر توفیق حاصل ہے تو یہ علامت قبولیت کی ہے۔