مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
مے کدہ میں نہ خانقاہ میں ہے جو تجلی دلِ تباہ میں ہے اور احقر کا شعر ہے ؎ ہزار خونِ تمنا ہزارہا غم سے دلِ تباہ میں فرماں روائے عالم ہےخونِ آرزو مطلع آفتابِ قرب ہے ارشاد فرمایا کہ جب سورج نکلتا ہے تو اُفقِ مشرق سرخ ہوجاتا ہے اسی طرح جس کے دل کے آفاق میں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا سورج طلوع فرمانا چاہتے ہیں اس کو خونِ تمنا کا حوصلہ وہمت دیتے ہیں ، وہ اپنی تمام بُری آرزوؤں کا خون کرتارہتا ہے اور اتنا زیادہ خونِ آرزو کرتا ہے کہ اس کے دل کا پورا آسمان لال ہوجاتا ہے۔ دنیا کے آسمان کا تو خالی مشرق لال ہوتا ہے جس سے ایک سورج نکلتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے عاشقین اپنے قلب کے جملہ آفاق کو سرخ کردیتے ہیں۔ لہٰذا ان کے قلب کے جملہ آفاق سے قرب ونسبت مع اللہ کے بے شمار آفتاب طلوع ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے کیف کو وہی جانتا ہے جس کو یہ نسبتِ خاصہ نصیب ہوتی ہے۔نسبت مع اللہ کی علامات ارشاد فرمایا کہ جس کو نسبتِ خاصہ مع اللہ نصیب ہوجاتی ہے یعنی جس کے دل میں اللہ آجاتا ہے سلاطین کے تخت وتاج اس کی نگاہوں سے گر جاتے ہیں۔آفتاب وماہتاب کی روشنی اس کی نظر میں پھیکی پڑجاتی ہے ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لوشمع محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی اور لیلائے کائنات کے نمکیات اس کو جھڑے ہوئے نظر آتے ہیں یعنی ان کی اہمیت دل سے نکل جاتی ہے اور اس کی فنائیت ہمہ وقت ان کے سامنے ہوتی ہے۔کیوں کہ ہر چیز