مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
بنارہا ہے۔ ایسے نفعِ متعدی پر لعنت بھیجو جس سے تمہارا نفعِ لازمی بر باد ہوجائے۔ 4) اگر لڑکیوں کا مدرسہ کھولنا ہے تو نہایت تقویٰ سے رہنا پڑے گا۔ اپنی محرم یعنی بیوی، والدہ وغیرہ سے مدرسے کا انتظام کراؤ ۔ عورتوں کا عورتوں ہی سے رابطہ رہے۔ خود بالکل الگ رہو اور اگر اتنی ہمت اور تقویٰ نہیں ہے تو مدرسہ بند کردو۔ دوسروں کو جنّتی بنانے کے لیے خود جہنم کا راستہ اختیار کرنا کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہمارے ذریعے دوسرے تو جنّت میں پہنچ جائیں اور ہم نافرمانی سے جہنم میں چلے جائیں ۔ نفعِ لازم مقدم ہے نفعِ متعدی سے۔ پہلے خود اللہ والے بنو، یہ فرض ہے ، تقویٰ فرضِ عین ہے۔ اور مدرسے کھولنا فرضِ کفایہ ہے،عالم بننا، حافظ بننا سب فرضِ کفایہ ہے فرض عین نہیں ہے۔ آج مدرسوں میں فرضِ کفایہ کی فکر ہے کہ خوب مدرسے کھولو، خوب حافظ وعالم بناؤ لیکن یہ بتائیے مدرسہ کھولنے والوں کے ذمہ ، اساتذہ اور طالب علموں کے ذمہ تقویٰ سیکھنا فرضِ عین ہے یا نہیں؟ لیکن اس راستےمیں کیوں کہ مشکل نظر آتی ہے، نفس کو مارنا پڑتا ہے،حرام کو چھوڑنا پڑتا ہے اس لیے فرضِ عین کو چھوڑ دیا اور فرضِ کفایہ کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔اور جب تقویٰ نہیں تو حدود کی پابندی کیسے ہوگی۔ لہٰذا کہتا ہوں کہ اگرانتہائی تقویٰ،احتیاط اورخوفِ خدا کے ساتھ لڑکیوں کے مدرسے چلاسکتے ہو تو فبہا ورنہ ان مدرسوں کو بند کردو ۔ مدرسے سے مقصود جنّت میں جانا ہے نہ کہ جہنم میں۔ (۱۴؍رمضان المبارک ۱۴۱۸ ھ مطابق ۱۳؍جنوری ۱۹۹۹ء بروز منگل بعد فجر خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال ۲ کراچی )مصیبت پر نزولِ لفظِ بشارت کی ایک لطیف حکمت دورانِ درسِ مثنوی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)!آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے۔ معلوم ہوا کہ بشارت اچھی چیز کے لیے دی جاتی ہے۔ اگر مؤمن کے لیے مصیبت کوئی خراب چیز ہوتی تو اللہ میاں بشارت نہ دیتے۔ لفظ بشارت کا نزول بتارہا ہے کہ مؤمن کے لیے مصیبت