مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
پراللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے چھین لیا اور مدینہ کے لوگ عاشق تھے اور جان ومال سے فدا تھے تو ناقدروں اور محروموں سے چھین کر مدینہ کے عاشقوں کو اپنا رسول دے دیا۔یہ ہے قیمت اہل محبت کی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی پروا نہیں کی، اپنے شہر بلدِ امین کی پروا نہیں کی، آبِ زمزم کی پروا نہیں کی،اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدر دانوں کی یہ قدر کی کہ ہجرت کو فرض کردیا اور یہ اختیاری مضمون نہیں تھا کہ اے نبی! آپ اور آپ کے صحابہ چاہیں تو مدینہ چلے جائیں چاہیں تو یہیں رہیں ۔ نہیں!یہ لازمی مضمون تھا۔ اہلِ مدینہ کی محبت کا حق یہی ہے کہ ہجرت کو فرض کردیا، تاکہ ساری زندگی آپ ان کے درمیان رہیں اور آپ کا مرنا جینا ان ہی کے ساتھ ہو۔ اس پر جو علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے مجھے جنوبی افریقہ میں عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ جس بستی کے لوگ کسی اللہ والے کی قدر نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان نالائقوں سے اس اللہ والے کو اٹھالیں گے اور ایسی بستی میں پہنچادیں گے جہاں اس کے قدر داں ہوں گے اور وہاں اس کا فیض عام ہوگا۔ وہ بستی والے بھی مستفید ہوں گے اور جو دین کا کام وہاں ہوگا وہ ان کے لیے قیامت تک صدقۂ جاریہ ہوگا۔شیطانی بیج ارشاد فرمایا کہ وطنیت اور عصبیت کا بیج شیطانی بیج ہے۔ اس سے جو درخت پیدا ہوں گے وہ شیطانی درخت ہوں گے رحمانی درخت نہیں ہوسکتے،لہٰذا عصبیت سے پناہ مانگو۔جب مکہ شریف فتح ہوگیا تو حجۃ الوداع پر مکہ شریف کے بعض نو مسلموں کو ان کی تالیفِ قلب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اونٹ اور کچھ بکریاں زیادہ دے دیں۔ فوراً شیطان انسان کی شکل میں آیا اور کہا کہ دیکھا نبی نے وطن کی محبت میں وطن کے نوجوانوں کو انصار سے زیادہ دے دیا۔ بعض کے دل میں وسوسے گزرگئے۔نعوذ باللہ!ان کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض تھوڑی پیدا ہوا تھا، ایک وسوسہ گزر گیا جو غیر اختیاری ہوتا ہے،اسی لیے وسوسہ آنا خلافِ ایمان نہیں ہے۔ لیکن شیطان کی اس چال سے آپ کو بذریعۂ وحی مطلع کیا گیا اور آپ خطبہ