مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
گا۔ مدرسوں میں علمِ منزلِ مولیٰ سکھایا جاتا ہے اور خانقاہوں میں بلوغِ منزلِ مولیٰ کا انتظام کیا جاتا ہے،کہ علمِ منزل رکھنے والے بالغِ منزل ہوجائیں، اللہ تک پہنچ جائیں۔ خانقاہوں سے ، اللہ والوں کی صحبت سے جب عالمِ منزل بالغِ منزل ہوجاتا ہے، اپنے علم پر عمل کرکے اہل اللہ کی برکت سے اللہ تک پہنچ جاتا ہے پھر اس کا درس خشک درس نہیں ہوتا ہے درسِ محبت ہوتا ہے ۔ یہ جب اللہ کا نام لیتا ہے، اللہ کی طرف بلاتا ہے تو خود اس کی روح پر زلزلہ طاری ہوتا ہے، لہٰذا دوسری روحوں کو بھی مست کردیتا ہے، ہزاروں اس کی صحبت سے اللہ والے بن جاتے ہیں۔ لہٰذا محض عالمِ منزل ہونا کافی نہیں بالغِ منزل ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث پڑھنے پڑھانے کا مزہ جب ہے کہ پڑھانے والا بھی صاحبِ نسبت ہو اور پڑھنے والے بھی صاحب ِنسبت ہوں۔علم وعمل کی قبولیت کے شرائط ارشاد فرمایا کہ صرف علم کافی نہیں ہے ۔ علم جب عمل میں تبدیل ہو اور عمل میں اخلاص ہو اور اخلاص تابعِ سنت ہو، تب جا کے وہ علم منزل تک پہنچاتا ہے۔ اخلاص تابعِ سنت ہونے کے کیا معنیٰ ہیں ؟ ایک شخص عصر کے بعد کمرہ بند کرکے تنہائی میں جہاں کوئی مخلوق نہیں نفلیں پڑھ رہا ہے اخلاص ہے مگر چوں کہ عصر کے بعد نفل منع ہے، اس لیے یہ اخلاص چوں کہ تابع سنت نہیں اس لیے مقبول نہیں۔ یہ محنت رائیگاں ہے۔قابل اور مقبول ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ قابل ہوتے ہیں مقبول نہیں ہوتے اور بعض لوگ مقبول ہوتے ہیں قابل نہیں ہوتے اور بعضے لوگ دونوں ہوتے ہیں قابل بھی اور مقبول بھی۔لہٰذا ایسا مرشد اگر مل جائے جو دونوں کا جامع ہو تو سونے پر سہاگہ ہے۔