مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کاش کہ مادر نزادے مر مرا کاش کہ مجھے ماں نے جنا ہی نہ ہوتا کہ آج مجھ سے یہ غلطی ہوتی ؎ یا مرا شیرے بہ خوردے در چرا اس خطا سے پہلے ہی مجھے شیر کھاجا تاکہ یہ خطا مجھ سے نہ ہوئی ہوتی۔ یہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ ہیں صاحبِ قونیہ۔خطا پرندامت کا معیار خطا پر ندامت کا معیار مولانا نے پیش کردیا کہ خطا پر اتنی بڑی ندامت ہونی چاہیے کہ ماضی تمنائی سے فرمارہے ہیں’’ کاش کہ مادر نزادے مر مرا ‘‘ کاش کہ میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا کہ مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑتا یا اس سے پہلے مجھے شیر کھا جاتا تاکہ یہ خطا مجھ سے نہ ہوتی۔ یہ کمالِ ندامت ہے یا نہیں؟’’مثنوی ‘‘ایک مخدوم کتاب یہی میں کہتا ہوں کہ مولانا رومی کو پہچاننے والے بھی دنیا میں کم ہیں یہ شخص اُمت کا بہت بڑاشخص ہے۔ جنہوں نے مثنوی کا مطالعہ کیا ہے وہ سمجھتے ہیں ہمارے حاجی صاحب مثنوی کے عاشق تھے۔حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جیسا بڑا عالم بھلا کسی معمولی کتاب کی شرح لکھتا!حضرت نے مثنوی کی شرح لکھی ہے جس کا نام ہےکلید مثنوی۔ مثنوی مخدوم کتاب ہے۔ مخدوم اس کتاب کو کہتے ہیں جس کی شرح لکھی جائے۔ مثنوی کو ایسی مخدومیت حاصل ہے کہ مختلف ملکوں میں بڑے بڑے علماء نے مختلف زبانوں میں اس کی شرح لکھی ہے۔صدورِ خطا کے بعد تلافیٔ خطا ضروری ہے تو یہ بتارہا ہوں کہ شیخ کا دل ہاتھ میں لے لو تو سمجھ لو کہ اللہ کو پاگئے صدورِ خطا تو لوازمِ بشریت میں سے ہے لیکن تلافیٔ خطا ہمارے ذمہ ہے۔ صدورِ خطا پر نادم ہوجاؤ لیکن ہر وقت اس فکرمیں بھی نہ رہو کہ ایسا کیوں ہوا۔ یہ پچھتا وا ندامت کا جزہے لیکن مولانا کا