مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
(۲؍ربیع الثانی ۱۴۱۸ ھ مطابق ۶؍ اگست ۱۹۹۷ء )فصل اور فراق اشتدادِ محبت کا ذریعہ ہے حضرتِ والا کے ایک مُجاز ڈیرہ غازی خان سے تشریف لائے۔حضرتِ والا نے ان کو مدینہ منورہ کی ایک خاص تصویر جو خاص کیمرا سے کھینچی گئی ہے اور حضرتِ والا کے کمرہ میں دیوار پر آویزاں ہے اور بلب سے روشن ہوجاتی ہے ان کو دکھا ئی اور فرمایا کہ یہ آسمان اور یہ سرخیاں سب مدینہ منورہ کی ہیں پھر اپنا یہ مصرع فرمایا کہ ؎ کراچی میں ہے آسمانِ مدینہ ان بزرگ نے مدینہ منورہ کی تصویر دیکھ کر رقت آمیز آواز میں نہایت درد سے خواجہ صاحب کا یہ شعر پڑھا ؎ مدینہ جاؤں پھر آؤں مدینہ پھر جاؤں تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے حضرتِ والا نے فرمایا کہ کسی نے خواجہ صاحب سے کہا کہ جاؤں آؤں اور پھر جاؤں کے بجائے وہیں کیوں نہ رہ جاؤں ۔ فرمایا کہ نہیں جاؤں آؤں میں جو مزہ ہے وہ رہ جاؤں میں نہیں رہے گا۔عشق ٹھنڈا پڑجائے گا۔ محبوب سے ہر وقت ملاقات میں عشق ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور آنے جانے میں تڑپ باقی رہتی ہے کہ آہ! وقت ختم ہونے والا ہے اور جدائی میں پھر محبوب کی ملاقات کے لیے تڑپتا ہے اسی لیے رکوع سے فوراً سجدہ کا حکم نہیں دیا بلکہ رکوع کے بعد قیام سے کچھ فصل کردیا تاکہ محبت اور تیز ہوجائے اور تڑپ کر سجدہ کرو۔ اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بھی تھوڑا سا فصل کردیا۔ وصل کی قدر فصل سے ہوتی ہے ۔ فصل اور فراق محبت کو تیز کردیتا ہے۔ حالتِ قبض جو سالکین کو پیش آتی ہے کہ عبادت میں مزہ نہیں آتا، دل بجھا بجھا سا رہتا ہے اللہ تعالیٰ سے دوری معلوم ہوتی ہے جس سے سالک تڑپ جاتا ہے اس کا بھی یہی راز ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی محبت کو اور تیز کردیتے ہیں۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ حالتِ قبض سے گھبرانا نہیں چاہیے اس سے بہت ترقی ہوتی ہے، بندے کا عجب وکبر ٹوٹ جاتا ہے اور دل شکستہ ہوجاتا ہے کہ میں کچھ