مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نکالے جائیں گے، اس سے اتنا زیادہ دل کیوں لگائیں۔ جب اللہ کا نام لیا جارہا ہو یا دین کی بات سنائی جارہی ہو تو اس وقت دنیا کو مت دیکھو کہ دنیا کدھر ہے ؎ یہاں تو ایک پیغامِ جنوں پہنچا ہے مستوں کو ان ہی سے پوچھیے دنیا کو جو دنیا سمجھتے ہیںنفس کا غم روح کی خوشی کا سبب ہے ارشاد فرمایا کہ نظر بچانے میں جو غم ہوتا ہے اس سے نہ گھبرائیے۔ ہمت کرکے حسینوں سے نظر بچاؤ کہ نفس غم سے کہے آہ اور روح کہے واہ ۔ حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گناہ سے بچنے میں نفس میں تو غم آتا ہے لیکن اسی وقت روح میں نور پیدا ہوتا ہے ۔ اگر نفس میں ایک کلو غم آیا تو روح میں اسی وقت ایک کلو نور بن جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ قلب کو ایسی حلاوتِ ایمانی دے گا کہ آپ شکر ادا کریں گے کہ اے مالک !یہ آپ کا کرم ہے کہ آپ نے حسینوں کو پیدا کیا، اور ہمیں ان سے نظر بچانے کی توفیق دی جس سے ہمارے نفس میں آپ کے راستے کا غم آیا۔ دشمنوں کو یہ غم نصیب نہیں، یہ اولیاء اللہ کا غم ہے مگر اس غم کی بدولت ہمارے قلب کو آپ نے حلاوتِ ایمانی کا مزہ عطا فرمایا۔ نہ یہ حسین ہوتے نہ ہمیں نظر بچانے کی توفیق ہوتی اور نہ حلاوتِ ایمانی ہمیں عطا ہوتی جس کی لذت کے سامنے سلطنتِ ہفت اقلیم کی لذت ہیچ ہے۔ حسینوں کو دیکھنے سے آنکھوں کو تو مٹھاس ملتی ہے ۔لیکن یہ مٹھاس دل پر عذاب بن جاتی ہے۔ تھوڑی دیر کی لذت دل کی مستقل کلفت بن جاتی ہے اور دل کی حلاوتِ ایمانی تمام اعضا کی حلاوتِ ایمانی کا سبب بنتی ہے کیوں کہ دل سپلائر ہے۔ دل ایک حوض ہے۔ اگر حوض میں دودھ اور شکر اور شربتِ روح افزا ہے تو اس کی ٹونٹیوں سے روح افزا ہی سپلائی ہوگا۔ قلب میں جب حلاوتِ ایمانی ہوگی تو قلب ہی سارے اعضا میں خون سپلائی کرتا ہے لہٰذا خون کے ساتھ ساتھ حلاوت ایمانی بھی سپلائی ہوگی اور سارے جسم کو سکون حاصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ کا قلب وقالب سکون واطمینان کا حامل ہوتا ہے۔