مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نہ کرو اور چار کی فکر نہ کرو۔ ایک بیوی پر ہی قناعت کرو۔ یہ حضرتِ والا کی فطری خوش طبعی ہے جس سے حضرتِ والا کی گفتگو سامعین کے لیے انتہائی لذیذ ہوجاتی ہے۔ ایئرپورٹ سے مولانا مفتی حسین بھیات صاحب کے مکان پر حضرتِ والا تشریف لائے، مجمع بھی ساتھ آیا لیکن حضرتِ والا رات بھر کے سفر سے تھکے ہوئے تھے لہٰذا اعلان کردیا گیا کہ اب بعد مغرب مجلس ہوگی اس وقت حضرتِ والا آرام فرمائیں گے۔ لیکن کمرے میں چند خواص علماء تھے ان سے گفتگو کے دوران بعض اہم ارشادات یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔کیفیتِ احسانی اور صحبتِ اہل اللہ ارشاد فرمایا کہ جس دروازے سے کوئی نعمت ملتی ہے اس بابِ رحمت کا بھی اکرام کیا جاتا ہے۔ شیخ کا بھی اکرام اسی لیے ہے کہ وہ بابِ رحمت ہے، اس کے ذریعے سے اللہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بے مثال قیمت والا ہے ، اس کا راستہ بھی بے مثال قیمت والا، اس راستےکا راہ بر بھی بے مثال قیمت والا، اس راستے کا راہ روبھی بے مثال قیمت والا ، اس راستے کا غم اور کانٹا بھی بے مثال قیمت والا ہے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر اللہ کے راستے میں ایک کانٹا چبھ جائے تو یہ کانٹا اتنا قیمتی ہے کہ اگر ساری دنیا کے پھول اس کو سلام احترامی اور گارڈ آف آنر پیش کریں تو اس کانٹے کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ کے راستے میں، گناہ سے بچنے میں،نظر بچانے میں دل میں کوئی غم آجائے تو ساری دنیا کی خوشیاں اگر اس غم کو سلام کریں تو اس غم کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیوں کہ اللہ کے راستے کا غم ہے۔ لہٰذا صحبتِ شیخ کو نعمتِ عظمیٰ سمجھو اور اپنی تمام نفلی عبادات واذکار سے زیادہ شیخ کی صحبت کے ایک لمحےکو غنیمت سمجھو۔ اگر صحبت ضروری نہ ہوتی اور علم کافی ہوتا تو قرآنِ پاک پڑھ کر ہم سب صحابی ہوجاتے ۔ تلاوتِ قرآن ِپاک سے صحابی نہیں ہوتا ، نگاہ ِنبوت سے صحابی ہوتا ہے، نگاہِ نبوت سے صحابہ کو وہ کیفیتِ احسانی حاصل ہوئی تھی کہ ان کا ایک مد جَو صدقہ کرنا ہمارے اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے افضل