مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
(۲؍رمضان المبارک ۱۴۱۷ ھ مطابق ۱۱؍جنوری ۱۹۹۷ ء مکہ مکرمہ ۱۱ بجے صبح بروز ہفتہ )حرمین شریفین میں حفاظتِ نظر کے متعلق علمِ عظیم ارشاد فرمایا کہ نامحرموں پر نظر کرنا سارے عالم میں حرام ہے لیکن عالم ِحرمین شریفین میں اس کی حرمت اشد ہے۔ وجہ کیا ہے ؟ کہ یہاں آنے والے اور آنے والیاں اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اور ہر میزبان اپنے مہمانوں کی ذلت کو اپنی ذلت سمجھتا ہے جیسے حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا اس قوم سے جو فرشتوں کو حسین لڑکے سمجھ کر ان کی طرف بُرا ارادہ کررہی تھی اور اس وقت تک حضرت لوط علیہ السلام کو بھی علم نہیں تھاکہ یہ فرشتے ہیں، لہٰذا انہوں نے فرمایا:قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ؎ اے نالائقو !یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوا نہ کرو۔ معلوم ہوا کہ مہمان کو ذلیل کرنا میزبان کو رسوا کرنا ہے ۔ لہٰذا یہاں بد نظری کرنا، ان کے لیے دل میں بُرے خیال لانا اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کو رسوا کرنا ہے کیوں کہ یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَمَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ؎ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے راز سے باخبر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ نالائق میرے مہمانوں کو بُری نظر سے دیکھ رہا ہے اور ان کے متعلق بُرے بُرے خیالات پکا رہا ہے لہٰذا جو یہاں بدنظری کرے گا اللہ تعالیٰ کے حقوقِ عظمت میں مجرم ہوجائے گا ، اور مدینہ شریف میں بدنگاہی کی تو عظمتِ الوہیت میں کوتاہی کا بھی مجرم ہوا اور عظمتِ رسالت کے حقوق میں بھی مجرم ہوا ،کیوں کہ حرم مکہ میں وہ اللہ کے مہمان ہیں اور مدینہ منورہ میں وہ اللہ کے بھی مہمان ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی مہمان ہیں۔ یہاں چند دن تقویٰ سے گزارنے سے کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ملکوں میں بھی ہمیشہ کے لیے حفاظتِ نظر کی توفیق دے دیں کہ یہ شخص اتنا عادی تھا لیکن ہمارے حرم کا احترام کیا اور یہاں اپنے نفس پر مشقت کو برداشت کیا چلو اس کی برکت سے عجم میں بھی اس کو تقویٰ دے دو ۔لہٰذا کیا عجب کہ تقویٰ فی الحرم تقویٰ فی العجم کا ذریعہ ہوجائے۔ ------------------------------