مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نسبت مع اللہ عطا ہوجاتی ہے وہ ہر وقت اپنے قلب ونظر کو بچاتا ہے، ہر وقت چوکنّا رہتا ہے کہ کہیں کوئی حسین نہ آجائے جو میرے ایمان کو چھین لے ؎ نہ کوئی راہ پاجائے نہ کوئی غیر آجائے حریمِ دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہنا جس کو اپنے قلب کی پاسبانی کی توفیق نہ ہوسمجھ لو کہ ابھی اس کے دل کو نسبت کا مشک عطا نہیں ہوا۔ میرے ایک دوست نے کہا کہ جس مکان میں دولت ہوتی ہے اس میں مضبوط تالا لگاتے ہیں۔ جس کے دل میں نسبت مع اللہ کی دولت ہوتی ہے وہ آنکھوں کا تالا مضبوط لگاتا ہے یعنی نظر کی حفاظت کرتا ہے،اور جو نظر کی حفاظت نہیں کرتا یہ دلیل ہے کہ اس کا دل ویران ہے، اس میں نسبت کا خزانہ نہیں۔کیفیتِ عطائے نسبت اور اس کی مثال ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الاُمت فرماتے ہیں کہ نسبت اچانک عطا ہوتی ہے بتدریج عطا نہیں ہوتی جیسے جب کوئی بالغ ہوتا ہے تو یہ نہیں کہتا کہ آج میں ایک آنہ بالغ ہوگیا کل دو آنہ ہوا، پرسوں چار آنہ بالغ ہوا۔ایک سیکنڈ میں بالغ ہوتا ہے ایسے ہی نسبتِ خاصہ آنِ واحد میں عطا ہوتی ہے البتہ جس طرح بچہ غذا کھاتا رہتا ہے جس سے رفتہ رفتہ جسم میں طاقت آتی ہے اور بالغ ہونے میں وقت لگتا ہے لیکن جب بلوغ ہوتا ہے تو اچانک ہوتا ہے اسی طرح جو وقت لگتا ہے وہ ذکر میں لگتا ہے رفتہ رفتہ روح میں ذکر کے انوار سے طاقت آتی رہتی ہے۔ پھر اپنے وقت پر نسبت مع اللہ اچانک عطا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال اور بھی ہے کہ جیسے کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے، رک جاتا ہے پھر کھٹکھٹانے لگتا ہے آخر گھر والے کو رحم آجاتا ہے اور اچانک دروازہ کھول کر سامنے آجاتا ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے تھوڑا سا سر نکالے پھر ناک ، پھر کان نکالے، پھر ہاتھ نکالے۔اسی طرح نسبت بھی اچانک عطا ہوتی ہے تدریجاً نہیں ۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ گفت پیغمبر کہ چوں کوبی درے عاقبت بینی ازاں درہم سرے