مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ارتکابِ معصیت کا سبب اور اس کی حِسّی مثال ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی کہے کہ میں پُرانا مجرم ہوں بچپن سے بدنظری کی ، حسینوں کو تاکنے کی عادت ہے اور گناہ کی عادت راسخ ہوچکی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ کی کتنی ہی عادت راسخ ہو اس کے ترک پر اسے اختیار اور طاقت حاصل ہے ورنہ تقویٰ کسی زمانے میں فرض ہوتا اور کسی زمانے میں فرض نہ ہوتا کیوں کہ طاقت کے بغیر تقویٰ فرض کرنا ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے ۔ معلوم ہوا کہ گناہ چھوڑنے کی طاقت ہر زمانے میں ہے، ماضی میں بھی، حال میں بھی، استقبال میں بھی۔ اس کی دلیل حِسّی پیش کرتا ہوں۔ ایک بہت تگڑا آدمی جو بہت خونی اور بہت ماہر باکسر ہے کہتا ہے کہ سنا ہے کہ آپ کی بدنظری کی عادت بہت راسخ ہے۔ میں آج آپ کے ساتھ یہاں سے کیپ ٹاؤن تک چلتا ہوں اور میرے پاس خنجر بھی ہے اور پستول بھی ہے۔ اگر آج آپ نے بدنظری کی تو میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں۔ اس وقت یہ راسخ النظر صاحب نظر بازی کریں گے ؟ کیا وجہ ہے کہ ایک مخلوق سے ڈر کر تقویٰ آسان ہوجائے اور حق تعالیٰ کی عظمت سامنے ہوتے ہوئے تقویٰ آسان نہ ہو ۔ معلوم ہوا کہ استحضارِ عظمتِ الہٰیہ سے یہ شخص محروم ہے ، اللہ کی عظمت نظر نہیں آتی اس لیے نفس کی بُری خواہش کو خدا بنایا ہوا ہے۔ بس حاصلِ سلوک ، حاصلِ تصوف ، حاصلِ تزکیۂ نفس، حاصلِ اصلاحِ نفس، اولیائے صدیقین کی منتہا اور آخری سرحد جس کے بعد ولایت کا کوئی اور مقام نہیں ہے وہ صرف یہ ہے کہ بندہ ایک لمحہ اللہ کو ناراض نہ کرے، وظیفہ چاہے کم پڑھے ۔ اللہ کا ولی بننا تو بہت آسان ہے ۔ بتائیے کام کرنا مشکل ہے یا کام نہ کرنا؟ کام کرنا مشکل ہے، کام نہ کرنا آسان ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ کام نہ کیجیے اور ولی اللہ بن جائیے۔ وہ کیسے؟ گناہ کا کام نہ کیجیے، آرام سے رہیےاور ولی اللہ بن جائیے۔ صرف فرض،واجب اور سنت ِمؤکدہ ادا کیجیے، گناہ نہ کرنے سے غم تو ہوگا لیکن یہ غم اُٹھالیجیے اور ولایتِ صدیقین کی منتہا کو پہنچ جائیے۔ بتا ئیے اس سے زیادہ آسان راستہ اور کیا ہوگا۔