مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
مدحِ تو حیف است بازندانیاں تمہاری تعریف ان نفس کے قیدیوں پر سخت گراں ہے لہٰذا اب ان لوگوں کے سامنے ہم تمہاری تعریف نہیں کریں گے بلکہ ؎ گویم اندر مجمع روحانیاں اب اہلِ روحانیت کے مجمع میں تمہاری تعریف کروں گا۔مثنوی کے الہامی ہونے کی طرف ایک اشارہ مثنوی کے الہامی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مولانا فرماتے ہیں ؎ قافیہ اندیشم و دلدارِ من گویدم مندیش جز دیدارِ من جب میں قافیہ سوچنے لگتا ہوں تو عالمِ غیب سے مجھے آواز آتی ہے کہ اے جلال الدین! مت سوچ مثنوی تو ہم لکھوارہے ہیں بس میری طرف متوجہ رہو۔ اور ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب مولانا کے قلب پر مثنوی کا ورود بند ہوگیا تو مولانا سمجھ گئے کہ مثنوی ختم ہوگئی لہٰذا آدھا قصہ بیان کرکے چھوڑ دیا، اپنی طرف سے اس کو پورا بھی نہیں کیا۔ یہ بھی نہ شرمائے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور وجہ یہ بیان کی کہ ؎ چوں فتاد از روزن دل آفتاب میرے دل کی کھڑکی کے سامنے جو آفتابِ علم عالمِ غیب سے مثنوی الہام کررہا تھا وہ ڈوب گیا ؎ ختم شد واللہ اعلم بالصواب لہٰذا مثنوی ختم ہوگئی اور اللہ ہی کو ہر چیز کے صواب وحکمت ومصلحت کا علم ہے اور ایک پیشین گوئی بھی فرمادی کہ اللہ تعالیٰ ایک نورِ جاں پیدا کرے گا جو اس مثنوی کوپورا کرے گا ۔ چناں چہ پانچ سو سال کے بعد بارہویں صدی ہجری میں مفتی الٰہی بخش کاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی کی تکمیل فرمائی اور اس قصے کو بھی پورا کردیا جو مولانا رومی نے آدھا چھوڑدیا تھا اور فرمایا کہ میں اپنی روح میں مولانا رومی کی روح کے فیض کا