مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ جب اپنا پیٹ بھرنے کے لیے میں خون چوستا ہوں تو ہوا مجھے اڑا کرلے جاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں کا موجود ہونا ضروری ہے لہٰذا تم مدعی ہو میں ابھی مدعا علیہ کو بلاتا ہوں اور ہوا کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔جب ہوا آئی تو یہ بھاگ گیا اور کہا کہ میں بھاگا نہیں ہوں بھگایا گیا ہوں کیوں کہ ہوا کے سامنے میں ٹھہر نہیں سکتا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا سے فرمایا کہ تو چلی جا۔جب مچھر آیا تو آپ نے ڈانٹ کر فرمایا کہ جب مدعا علیہ آیا تو تم کیوں بھاگ گئے ۔ اس نے کہا: یہی تو رونا ہے کہ جب ہوا آتی ہے تو میرا وجود نہیں رہتا اور میرا پیٹ نہیں بھرتا۔ میں خون چوسنے میں لگاہوتا ہوں کہ ہوا آتی ہے اور مجھے بھگادیتی ہے ۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کو بیان کرکے فرمایا کہ جب اللہ اپنی تجلیاتِ خاصہ سے تمہارے دل میں متجلّی ہوگا تو تمہارے اندھیرے خود ہی نہیں رہیں گے ؎ می گریزد ضدہا از ضدہا شب گریزد چوں بر افروز د ضیا جب آفتاب نکلتا ہے تو رات خود بھاگتی ہے اسے بھگانا نہیں پڑتا لہٰذا ظلمات کو بھگانے کی فکر نہ کرو آفتاب سے دوستی کرلو، اندھیرے خود بخود بھاگ جائیں گے۔لہٰذا جب مخلوق تعریف کرے تو کہیےاَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُاللہ تعالیٰ کے شکر سے اپنے اوپر سے نظر ہٹ جائے گی اور اللہ کی عطا پر ہوجائے گی جس سے اللہ کا قرب نصیب ہوگا اور قرب اور بُعد کا جمع ہونا محال ہے لہٰذا جب شکر پیدا ہوگیا تو تکبر خود بھاگ جائے گا ۔ اس جواب سے وہ عالم بہت خوش ہوئے۔تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ اہلِ علم کا فرق ارشاد فرمایا کہ جو عالم پندارِ علم کی وجہ سے اللہ والوں سے مستغنی رہتا ہے، ان کی صحبت میں رہ کر اپنی اصلاح نہیں کراتا، اہل اللہ کے ناز نہیں اُٹھاتا تقویٰ کے مجاہدات سے نہیں گزرتا میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب فرماتے تھے کہ اس کی مثال