مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
خوش طبعی اور مزاح میں اصلاح وتربیت دورانِ تقریر ایک عالم صاحب جو حضرت کے مُجاز بھی ہیں اُونگھنے لگے تو فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ ان کی نیند ایسی ہے کہ یہ لقمہ ہونٹوں تک لائیں گے اور سوجائیں گے اور لقمہ ہاتھ سے گرجائے گا لیکن اگر ان کی شادی یہاں ایک ترکی لڑکی سے طے کردی جائے اور اطلاع ہوجائے کہ ابھی مغرب کے بعد آنے والی ہے تو پھر ان کو نیند نہیں آئے گی لیکن بعد میں کوئی خبر دے کہ تمہاری بیوی نے ابھی پاؤں میں مہندی لگائی ہے، جب مہندی سوکھے گی اور جھڑے گی تب آئے گی تو مولانا کا کیا حال ہوگا۔ شاعر کہتا ہے ؎ آئی خبر کہ پاؤں میں مہندی لگی ہے واں بس خوں ٹپک پڑا نگہہ انتظار سے یا اگر کسی مولوی کو نیند کی شکایت ہو لیکن کوئی دو لاکھ رین کا چندہ لے کر آجائے اور کہے کہ مولوی صاحب! یہ دو لاکھ گن لیجیے اور رسید دے دیجیے تو جس وقت وہ چندہ گن رہا ہو اس وقت کوئی مولوی یا مہتمم ہمیں سو کر دکھائے۔ تو پھر اللہ کی بات پر کیوں سوتے ہو۔ نوٹ زیادہ قیمتی ہے یا میرا مولیٰ زیادہ قیمتی ہے۔اپنے مولیٰ کے لیے آنکھیں کھول کر رکھو۔ جنّت میں اسی لیے نیند نہیں ہے۔ نیند جنّتی چیز نہیں ہے، دنیاوی راحت کی چیز ہے۔ اگر نیند جنّتی چیز ہوتی تو جنّت میں ہوتی۔ جنّت میں کوئی نہیں سوئے گا کیوں کہ سویا مرا برابر ہے۔ نیند میں لذتوں سے انقطاع ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ جنّت میں میرے بندے ہر وقت مزے کریں،سونے میں ان کا وقت ضایع نہ ہو، ہر وقت اپنے دوستوں میں ہنسیں بولیں،کھائیں پئیں۔ وہاں تو مزے ہی مزے ہیں۔دیکھیے اللہ تعالیٰ نے کیسی بات بیان کرادی۔ اسی گفتگو کے دوران مزاحاً فرمایا کہ جو قرضِ حسنہ مانگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نادہندگا ن میں سے ہے۔ کسی نے کہا کہ قرضِ حسنہ سے مراد ہے کہ قرض دہندہ جب اپنا قرض مانگے تو قرض دار ہنس دے۔قرضِ حسنہ یعنی قرض ہنسنا۔