مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نہیں ہوتی لیکن ایک ایک سنت پر جان دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہیں۔ محض زیارت سے کیا ہوتا ہے کیوں کہ ابوجہل بھی تو دیکھتا تھا۔ بیداری میں دیکھنے والوں کو کیا ملا جن کو اتباع نصیب نہیں ہوئی۔ بس اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا کوئی عمل سنت کے خلاف نہ ہو۔محبت کی کرامت ارشاد فرمایا کہ جب مکہ شریف فتح ہوگیا تو انصارِ مدینہ نے عرض کیا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ آپ پھر دوبارہ یہاں تشریف نہ لے آئیں اور ہم آپ کی صحبت سے محروم ہوجائیں۔ اے اللہ کے نبی!آپ ہم سے ہماری جان لے لیں، ہمارا مال لے لیں، آبرو لے لیں، ہم اپنی پوری کائنا ت آپ پر فدا کرنے میں سخی ہیں مگر آپ پر ہم سخی نہیں ہیں۔ آپ پر ہم انتہائی بخیل ہیں۔ سبحان اللہ ! لفظ بخیل کا اتنا بہتر استعمال پوری کائنات میں صحابہ کے علاوہ اور کون کرسکتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے وحی الٰہی سے ہجرت کی ہے۔ اے انصارِ مدینہ!اللہ کا یہی حکم ہے کہ میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہوگا۔یہ محبت کی کرامت ہے کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر کی اور اپنا جان ومال فدا کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہمیشہ کے لیے انہیں دے دیا۔تصوف کی حقیقت ارشاد فرمایا کہ آج کل لوگوں نے چند وظیفوں پر ، چند تسبیحات پر اور چند خوابوں اور مراقبات پر اور نفلی عبادات پر تصوف کی بنیاد رکھی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ قرآنِ پاک کا اعلان سن لیجیے کہ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ ہمارے ولی صرف متقی بندے ہیں ۔ تصوف کی حقیقت صرف تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ اگر اللہ والوں کے پاس رہنا ہے تو تقویٰ سیکھیےاور اگر یہ ارادہ نہیں ہے تو بلاوجہ وقت ضایع نہ کیجیے ۔ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ یعنی معیتِ اہل اللہ سے مقصد کیا ہے؟ تقویٰ ہے۔کیوں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ میں تقویٰ کا حکم ہے اور کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ حصولِ تقویٰ کا طریقہ ہے۔