مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
نہیں مرکب تھا۔لَایَعْلَمُوْنَ اسی لیے ہے۔میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمایا کہ جو لوگ صحابہ کو برا کہتے ہیں ان کو مولانا کہنا اس آیت سے جائز نہیں۔ جن کے علم پر اللہ کا لَا داخل ہو وہ عالم کیسے ہوسکتے ہیں، ان کی جہالت تو قیامت تک کے لیے مستند ہوگئی ۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں لَایَعْلَمُوْنَیہ تو بے علم لوگ ہیں پھر ان کو مولانا لکھنا کیسے جائز ہوگا ، میں نے حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں ایک ناقدِ صحابہ کے متعلق تمام علماء کے اقوال اور تحریرات نقل کی ہیں تو فرمایا کہ اس کو مولانا مت لکھنا صاحب لکھ دو کہ بین الاقوامی لفظ ہے۔ مسٹر کو بھی صاحب کہتے ہیں کہ صاحب سیٹ پر نہیں ہیں۔صاحب آگئے، پتلون میں پیشاب بھرا ہوا ہے مگر صاحب بولا جارہا ہے۔ لہٰذا صاحب لکھنے میں کوئی عزت نہیں ہے۔حدیث اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا الخ کی شرح ارشاد فرمایا کہ حدیثِ پاک میں ہے اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا اے اللہ! ہمیں مسکین زندہ رکھیےوَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًااورمسکینیت میں موت دیجیےوَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ؎ اور قیامت کے دن مسیکنوں میں اُٹھائیے۔اس دعا کو بمبئی کے ایک سیٹھ میرے پیر بھائی تین سال سے ڈر کے مارے نہیں پڑھ رہے تھے کہ میں مسکین ہوجاؤں گا تو زکوٰۃ کیسے نکالوں گا، مسجد مدرسے کی مدد کیسے کروں گا۔ میں نے کہا کہ یہ بڑے بڑے صحابہ جو امیر تھے جیسے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ دعا وہ کیوں پڑھتے تھے۔ یہاں مسکین سے مراد وہ مسکین نہیں کہ تم مفلس ہوجاؤ اور تم پر زکوٰۃ فرض نہ رہے اور بھیک مانگنے لگو اور مستحقِ زکوٰۃ ہوجاؤ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہو کر کیسے اپنی امت کو زکوٰۃ کا مستحق بنانا پسند کرتے کہ پیالہ لے کر زکوٰۃ مانگو اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں بلکہ مسکین کےمعنیٰ ہیں اَلْمِسْکِیْنُ ھُوَ مِنَ الْمَسْکَنَۃِ وَالْمُرَادُ ------------------------------