مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
فیوض ِربّانی (30؍شعبان المعظم ۱۴۱۷ھمطابق ۹؍جنوری ۱۹۹۷ ء بروز جمعرات جدہ صبح ۱۱ بجے)ذکر پر خشیت کی تقدیم کا راز ارشاد فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ؎ میں خشیت کو پہلے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ خشیت غالب رہے،کیوں کہ محبت جب خوف پر غالب ہوجاتی ہے تو بدعت ہوجاتی ہے۔خشیت محبت کو حدودِ شریعت کا پابند رکھتی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی میں صحابی کا دوڑ کر آنا بوجہ محبت کے تھا وَ ہُوَ یَخۡشٰی؎ اور وہ ڈر بھی رہے تھے، یہ حال ہے اور حال ذو الحال کے لیے قید ہوتا ہے یعنی ان کی محبت خشیت کی پابند تھی۔ معلوم ہوا کہ جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہوجاتی ہے۔اور خشیت کا تضاد تو محبت تھی لیکن حدیثِ پاک میں محبت کے بجائے ذکر کیوں فرمایا ؟ اس لیے کہ ذکر سببِ محبت اور حاصلِ محبت ہے جو ذکر کرے گا اس سے معلوم ہوگا کہ اس کو محبت حاصل ہے ورنہ جو محبت محبت تو کررہا ہے لیکن اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ محبت میں صادق نہیں۔ لہٰذا یہاں ذکر کی قید سے منافقین نکل گئے ۔ جو صادق فی المحبت نہیں وہ ذاکر نہیں ہوسکتا۔حکمِ استغفار کے عاشقانہ رموز ارشاد فرمایا کہ اِسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡسے دو مسئلے ثابت ہوئے : ایک تو یہ کہ ہم سےگناہ سرزد ہوں گے جب ہی تو معافی مانگنے کا حکم دے رہے ہیں،اور دوسرے یہ کہ اگر معاف نہ کرنا ہوتا تو معافی کا حکم نہ دیتے ۔جس طرح شفیق باپ جب بیٹے سے کہتا ہے کہ معافی مانگ تو اس کا معاف کرنے کا ارادہ ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مجھ سے ------------------------------