مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
میں ان کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے لا مجھ کودکھا ان کی طرح کوئی اگرہے حادث پر جو حادث فدا ہوگا تو میزانیہ اور مجموعہ حادث ہی ہوگا۔ لہٰذا کیوں نہ ہم اس واجب الوجود مولیٰ پر فدا ہوجائیں کہ جہاں پہنچ کر حادث بھی باقی ہوجاتا ہے ۔ پھر ہم مَاعِنْدَکُمْ یَنْفَدُ کیوں ہوں ، مَاعِنْدَ اللہِ بَاقٍ کیوں نہ ہوجائیں۔ وہ ایسے باقی ہیں کہ جو حادث ان کے پاس پہنچ گیا وہ بھی باقی ہوگیا، لہٰذا اپنی جوانی کو اللہ پر فداکرکے اپنی جوانی کو باقی کرلو، اپنے مال کو اللہ پر فدا کرکے مال کو باقی کرلو۔ اپنی جان ومال خواہشات وجوانی اللہ پر فدا کرو تاکہ مَاعِنْدَ اللہِ بَاقٍ ہوجاؤ ۔ حادث پر فدا ہوگے تو مَاعِنْدَکُمْ یَنْفَدُ رہو گے ۔ یَنْفَدُ کے دائرے سے اگر نکلنا ہے تو اللہ پر فدا ہونا سیکھو۔ اگر باقی باللہ ہونا چاہتے ہو تو فانی فی اللہ ہونا سیکھو۔یہ منطقی تقریر ہے۔ منطق کی کتابوں میں جو اَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌ پڑھا تھا الحمد للہ! آج وصول ہوگیا، لوگ حادث وقدیم کی اصطلاحات تک ہی رہتے ہیں لیکن ان سے معرفت کا سبق لینا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلہِ تَعَالٰی وَلَا فَخْرَ یَا رَبِّیْ (۲۴؍شعبان المعظم ۱۴۱۸ ھ مطابق ۲۵؍ دسمبر ۱۹۹۸ء بروز جمعرات بعد نمازِ فجر خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، کراچی)اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ کا عاشقانہ ترجمہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ مضارع سے نازل فرمایا اور مضارع میں دو زمانے ہوتے ہیں حال اور مستقبل ۔ تو ترجمہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں موجودہ حالت میں بھی اور اگر آیندہ بھی تم سے کوئی خطا ہوجائے گی تو ہم تمہاری توبہ قبول کرکے تمہیں معاف کردیں گے اور صرف معاف ہی نہیں کریں گے محبوب بھی بنالیں گے اور تمہیں اپنے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہونے دیں گے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال اور مستقبل دونوں کے تحفظ کی ضمانت دے رہے ہیں کہ توبہ کی برکت سے حالاً