مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
کر گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ آج حکیم اختر کے لیے تہری ( پیلے نمکین چاول ) پکاؤ۔ شرح سن کر حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ بے انتہا خوش تھے۔ ( احقر مرتب عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ حضرتِ والا کی زبانِ مبارک سے احقر نے بارہا سنا ہے۔ عشرت جمیل میر عفا اللہ عنہ ) چناں چہ حضرتِ والا کے قلم سے مثنوی کی ایسی عاشقانہ اور منفرد شرح ’’معارف مثنوی‘‘ کے نام سے اللہ تعالیٰ نے لکھوادی جس میں عشقِ حق کی آگ بھری ہوئی ہے اور عوام وخواص میں مقبول ہے اور اس کا ترجمہ انگریزی اور بنگلہ زبان میں ہوچکا ہے اور ہندوستان میں ایک عالم ہندی زبان میں اس کا ترجمہ کررہے ہیں اور دارالعلوم کنتھاریہ سے گجراتی زبان میں اس کا ترجمہ شایع کیا جارہا ہے اور ری یونین میں فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرنے کا بعض خاص احباب نے ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایک خصوصیت اس شرح کو یہ حاصل ہے کہ مثنوی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار میں بکھری ہوئی حکایات جو مثنوی کے مختلف دفتروں میں تھیں، حضرت نے ان کو ایک جگہ جمع کردیا اور نثر کی صورت میں ان کی تشریح اپنے دردِ عشق اور سوزِ دل کے ساتھ اس انداز سے فرمائی کہ یہ خود ایک مستقل تصنیف اور محبتِ الہٰیہ کی شراب دو آتشہ ہوگئی جس میں عارف رومی کی آتشِ عشق اور حضرتِ والا کا خونِ جگر شامل ہے۔ معارف ِمثنوی کی ابتدا میں حضرتِ والا کے تین شعر اس حقیقت کے غماز ہیں ؎ ایں کتاب دردِ دل اے دوستاں کردہ ام تالیف بہر عاشقاں اے دوستو! اپنے درد ِدل کی یہ کتاب میں نے اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے لیے لکھی ہے ؎ خونِ دل بر ہر ورق زاریدہ ام دردِ دل بر ہر ورق نالیدہ ام اس کے ہر ورق پر میں اپنا خونِ دل رویا ہوں اور اس کا ہر ورق میرا نالۂ دردِ دل لیے ہوئے ہے ؎