مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نہیں کرسکتے ہو اور میں لطیف ہوں گندی حالت میں تم کو کیسے پیار کروں یعنی قربِ خاص، نسبتِ خاصہ گناہوں کی حالت میں نصیب نہیں ہوسکتی۔ (۱۶؍ رمضان المبارک ۱۴۱۷ ھ مطابق ۲۴؍جنوری ۱۹۹۷ ء بروزِ جمعہ جدہ)اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ الخ کی عاشقانہ تقریر فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھائی اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ؎ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی ثناء وتعریف فرمائی کیوں کہثَنَاءُ الکَرِیْمِ دُعَاءٌ کریم کی تعریف کرنا اس سے مانگناہے اور جو چیز کریم سے لینی ہوتی ہے اسی صفت کی تعریف کرتے ہیں۔چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمت کو معافی دلوانی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفت عفو کا واسطہ دیا اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ اَیْ اِنَّکَ اَنْتَ کَثِیْرُ الْعَفْوِاے اللہ!آپ بہت معاف کرنے والے ہیں۔اور کریم کیوں فرمایا تاکہ اُمت کے گناہ گار بندے بھی محروم نہ رہیں کیوں کہ کریم کے معنیٰ ہیںاَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ وَالْمِنَّۃِ ؎ کریم وہ ہے جو لائقوں پر بھی فضل فرمادے اگر چہ استحقاق نہ بنتا ہو۔ تو کریم فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ گاروں کو مایوسی سے بچالیا کہ تم مانگو ، تمہارا پالا کریم مالک سے ہے جو بدون استحقاق اپنے نالائقوں کو بھی عطا فرماتا ہے تُحِبُّ الْعَفْوَ کی شرح ہے کہ اَنْتَ تُحِبُّ ظُھُوْرَ صِفَۃِ الْعَفْوِ عَلٰی عِبَادِکَ؎ اپنے بندوں کو معاف کرنا یہ عمل آپ کو بہت محبوب ہے فَاعْفُ عَنَّا پس ہم کو معاف کردیجیے، اپنا محبوب عمل ہم گناہ گاروں پر جاری فرما کر ہمارا بیڑا پار کردیجیے۔ کعبہ شریف میں جا کر یہ دعا مانگنے کا بہترین موقع ہے کہ اے اللہ! ہم اپنے اپنے ملکوں سے آئے ہیں آپ کو کریم جان کر۔ ہر آدمی جب بادشاہ کے پاس جاتا ہے تو کوئی تحفہ ------------------------------