مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اپنی اولاد میں علمائے ربّانییّن پیدا ہونے کی دعا کا استدلال ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے کہا کہ آج کل مدارس کےمہتمم علماء یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ! ہماری ذرّیات میں علماء پیدا فرما جو ہمارے مدرسوں کو چلاتے رہیں۔ یہ علماء تو مدرسوں کو موروثی جائیداد بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ جو یہ کہتا ہے نادان ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگا تھا رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ؎ کہ اے اللہ!میری ذرّیات میں سے ایک پیغمبر پیدا فرما۔ لہٰذا اپنی اولاد میں علمائے ربانییّن پیدا ہونے کی دعا کرنا خلافِ اخلاص نہیں ہے ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا نہ مانگتے کہ اے میرے رب! میری ہی ذرّیات میں پیغمبر پیدا فرما۔ علامہ آلوسی نے اس کی دو وجہ لکھی ہیں اول یہ کہ اپنے خاندان میں جب نبی ہوگا تو اس کو اپنے خاندان والوں کی زیادہ فکر ہوگی کہ میرے خاندان والے جہنم میں نہ جائیں اور دوسری وجہ یہ کہ خاندان والے بھی اس کی اتباع کریں گے کہ یہ ہمارے ہی خاندان کا آدمی ہے۔ چناں چہ حضرت مفتی شفیع صاحب نے میرے شیخ سے سوال کیا تھا کہ میرے بیٹے مولانا رفیع اور مولانا تقی عالم ہیں، لیکن اگر میں ان کو مدرسے میں رکھتا ہوں تو قوم مجھے بدنام کرے گی کہ یہ اقربا پروری کررہا ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ آپ اس کی پروا نہ کریں۔ دونوں کو مدرسے میں رکھیں ۔ آپ کے بیٹوں کو جو مدرسے کی قدر ہوگی کہ میرے باپ نے بڑے خون پسینہ سے یہ دار العلوم بنایا ہے وہ دوسرے کو نہیں ہوسکتی کیوں کہ جو مفت کی پاتا ہے مفت میں اُڑاتا ہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ مفتی صاحب حضرت کے مشورے پر ہنس پڑے، خوش ہوگئے اور جاکر دونوں بیٹوں کو دار العلوم میں اُستاد مقرر کردیا۔اہل اللہ کو اہلِ دل کیوں کہا جاتا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ مکھی کے پر ہیں لیکن اس کے پروں کو کسی نے پر تسلیم نہیں کیا کیوں کہ غلاظت پر گرتی ہے،اور جو پروانے روشنی پر فدا ہورہے ہیں ان کے پروں ------------------------------