مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
عظمت اور اللہ کے نام کی لذت کو الفاظ ولغت بیان کرنے سے قاصر اور مجبور ہوجاتے ہیں اس وقت اختر آہ وزاری اشکباری اور گریہ وزاری کرنے لگتا ہے کہ اے اللہ!الفاظ تو قاصر ہوگئے آپ اپنے نام کی لذت وحلاوت ہمارے دلوں میں ڈال دیجیے پھر کسی الفاظ ولغت کی ضرورت نہ ہوگی قلب وجاں اس لذت کا ادراک کریں گے جیسے کسی دیہاتی نے کبھی شامی کباب نہ کھایا ہو اس کے منہ میں کوئی کباب رکھ دے تو کباب کی لذت کو پاجائے گا اگر چہ بیان نہ کرسکے ۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے تو مدرسوں میں اللہ کی محبت کی فہرست پڑھی تھی لیکن کھانے کو ملی حاجی صاحب کے پاس ، حاجی صاحب اصطلاحی عالم نہیں تھے، وہ اللہ کی محبت کی مٹھائیوں کے نام نہ جانتے تھے لیکن قربِ الٰہی کی تمام مٹھائیاں کھائے ہوئے تھے۔ ان کی صحبت میں جا کر حضرت حکیم الاُمت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ، مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ، مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہم جیسے بڑے بڑے علماء کو اللہ کے قرب اور اللہ کے نام کی مٹھائی کی لذت ملی۔ حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علمائے ظاہر مدرسوں میں صرف فہرست پڑھتے ہیں لیکن جب تک کسی اللہ والے صاحبِ نسبت بزرگ کی خدمت میں نہیں جائیں گے اس وقت تک اللہ کے نام کی حلاوت اور مٹھائی کھانے کو نہیں مل سکتی۔ بدون صحبتِ اہل اللہ علم کی لذت کا ادراک نا ممکن ہے۔سایۂمرشد نعمتِ عظمیٰ ہے ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ حضرتِ والا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم جب کراچی سے ہردوئی واپس تشریف لے جانے لگے اس وقت میں نے حضرتِ والا کو یہ شعر سنایا ؎ شیخ رخصت ہوا گلے مل کے شامیانے اجڑ گئے دل کے حضرتِ والا خوش ہوگئے اور احقر کو تنہائی میں بلا کر ایک نعمت دے کرچلے گئے جو میں نہیں بتاؤں گا۔ ( احقر راقم الحروف نے عرض کیا کہ اگر حضرتِ والا بتادیں گے تو ہم