مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
قونیہ سے واپسی ۱۵؍جون ۱۹۹۷ ء بروزِ اتوار صبح ناشتے کے بعد قونیہ سے استنبول کے لیے واپسی ہوئی۔ راستے میں بس کے اندر حضرت مرشدی ومولائی عارف باللہ مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا کہ قونیہ میں مولانا رومی کی خانقاہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مولانا کی برکت سے مثنوی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار سے جن تین شعروں کا انتخاب شرح کے لیے دل میں ڈالا یہ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد ہے کیوں کہ یہ تین اشعار مثنوی کی روح ہیں۔محبتِ الٰہیہ اور اس کا طریقۂ حصول پہلے شعر میں مولانا نے دنیا میں آنے کا مقصد بتادیا کہ وہ اللہ کی یاد اور اللہ کی تلاش میں بے چین رہنا ہے اور اس مقصد کے حصول کا طریقہ بھی بتادیا کہ ؎ بشنو از نے چوں حکایت می کند جس طرح بانسری بانس کے مرکز سے کٹ کر آئی ہے اور اپنے مرکز کو یاد کرکے روتی ہے تو اے لوگو! تم بھی عالمِ ارواح سے، عالمِ امر سے ، اللہ کے عالمِ قرب سے کٹ کر دنیا میں آئے ہو تم کیوں اللہ کو یاد کرکے نہیں روتے ، تم کیوں اپنے مرکز کو یاد نہیں کرتے، کیوں دنیا کی رنگینیوں میں پھنس کر تم اللہ کو بھول گئے؟ لہٰذا بانسری کی طرح تم بھی روؤ ، اللہ کو یاد کرو جن کے پاس سے یہاں آئے ہو، لیکن بانسری کو رونے کی یہ توفیق جب ہوتی ہے جب وہ کسی کے منہ میں ہوتی ہے، بانسری خود نہیں بجتی ، بجائی جاتی ہے۔ اس کی صلاحیتِ آہ وفغاں محتاج ہے کسی بجانے والے کی، جب کوئی بجانے والا اس کا ایک سرا اپنے منہ میں لیتا ہے تب اس میں آہ ونالے پیدا ہوتے ہیں ورنہ ایک لاکھ سال تک اگر زمین پر پڑی رہے تو بج نہیں سکتی اسی طرح تمہاری روح کے اندر بھی اللہ کی یاد میں رونے کی صلاحیت موجود ہے مگر رونا جب نصیب ہوگا جب کسی اللہ والے سے تعلق کروگے،اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دو گے اس کو اپنا مربّی بناؤ گے۔ اس تعلق کی برکت سے اس اللہ والے کا دردِ دل تمہاری روح میں داخل ہوجائے گا اور پھر تمہاری