مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نظر بچائیےتاکہ روح قوی رہے اور اپنے عناصرِ متضادّہ اربعہ پر غالب رہے۔ نظر کی حفاظت کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے ہماری روح پر رحم فرمایا کہ بدنگاہی سے اس پر چار متضادّہ کا مزید بوجھ پڑجا ئے گا اور اس کی طاقت کمزور ہوجائے گی اور نفس سے مقابلہ اس کے لیے مشکل ہوتا چلا جائے گا۔گناہوں کے تقاضوں سے گھبرانا نہیں چاہیے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں گناہ کے تقاضے اور حسینوں کو دیکھنے کے تقاضے زیادہ ہوں اس کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تقاضے ہی تو اللہ تعالیٰ کا ولی بننے کا ذریعہ ہیں، بس اتنا کرنا ہے کہ ان تقاضوں پر عمل نہ کرو۔ جس سے دل شکستہ ہوجائےگا۔ جو زیادہ عاشق مزاج ہے اور زیادہ نظر بچاتا ہے اس کا دل بار بار شکستہ ہوتا رہتا ہے، اور جس کا دل زیادہ ٹوٹا رہتا ہے اس میں اللہ کی تجلیات زیادہ نفوذ کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دل کو اسی لیے توڑتے ہیں کہ جب دل پاش پاش ہوجائے تو میری تجلیاتِ قرب اس کے ذرّہ ذرّہ میں داخل ہوجائیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھایا۔ فرماتے ہیں ؎ بر برونِ کہہ چو زد نورِ صمد پارہ شد تا در درونش ہم زند جب کوہِ طور کی ظاہری سطح پر اللہ کی تجلیٔ صمدیت نازل ہوئی تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تاکہ میرے اندر بھی اللہ کی تجلی آجائے۔ اگر یہ ثابت رہتا اور نہ ٹوٹتا تو تجلی اوپر اوپر رہتی، اندر داخل نہ ہوتی۔ اسی طرح جو لوگ گناہ سے بچنے کے مجاہدات میں اپنی تمناؤں کا خون کرکے دل کو پاش پاش کرتے ہیں تجلیٔ قرب ان کے ذرّہ ذرّہ میں سما جاتی ہے اور ان کی نسبت اولیائے صدیقین کی ہوجاتی ہے، ایسے شخص کی گفتار، اس کا کردار اس کی رفتار اور اس کے جینے کے اطوار دلالت کرتے ہیں کہ یہ سینے میں ایک شکستہ دل رکھتا ہے۔ میرا شعر ہے ؎ میر میرے دلِ شکستہ میں جام و مینا کی ہے فراوانی ایسا دلِ شکستہ تجلیات سے معمور ہوتا ہے ۔ ایک شاعر نے اس کے متعلق عجیب شعر کہا ہے ؎