مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوجاتے ہیں اور سفید چوٹی بوڑھے گدھے کی دم معلوم ہوتی ہے اورجن رس بھری آنکھوں پر مرے تھے ان سے کیچڑ بہنے لگتا ہے اور جن ہونٹوں پر وہ میر کا یہ شعر پڑھتے تھے ؎ ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے جب لقوہ سے اسی معشوق کا منہ ٹیڑھا ہوگیا اور گلاب کی پنکھڑی لوہے کی ہتھکڑی معلوم ہونے لگی اس وقت ان کی چال میں لڑکھڑی پڑجاتی ہے پھر وہ اس گدھے کی طرح بھاگتے ہیں حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ ، فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ؎ جو شیر سے بھاگتا ہے۔ اس وقت پچھتاتے ہیں کہ آہ! ہم کس پر مرے تھے ۔ لاش پر مرنے کا لاس تب ان کو معلوم ہوتا ہے۔ اسی پر میرا شعر ہے ؎ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست جن کو پہلے غزل سنائے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان فانی لاشوں پر مرنے کے لیے یہ دل نہیں بنایا ، یہ دل مندر نہیں ہے اللہ کا گھر ہے۔ لَا اِلٰہَ سے ان فانی بتوں کو نکالوپھر جس کا گھر ہے وہ اس میں آجائے گا ؎ نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوب خدا کا گھر پئے عشق بتاں نہیں ہوتاقربِ حق کی لذتِ غیر محدود کا الفاظ ولغت احاطہ نہیں کرسکتے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نام کی غیر محدود عظمتوں کو اور غیر محدود لذتوں کو ہماری محدود لغت کیسے بیان کرسکتی ہے ۔ لغت کچھ دیر تو ساتھ دیتی ہے اس کے بعد الفاظ ہاتھ جوڑ لیتے ہیں کہ اس کے آگے بیان سے ہم قاصر ہیں جس طرح سدرۃ المنتہیٰ پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا تھا کہ اس کے بعد اگر ایک بال برابر بھی آگے جاؤں گا تو جل جاؤں گا۔ جب یہ مقام آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ کے نام کی ------------------------------