مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نثاری وفداکاری کے واقعات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں کیوں کہ یہ ایک طویل داستان ہے جس کو اگر لکھا جائے تو ایک مستقل کتاب بن جائے گی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ احقر سے یہ کام لے لے جس سے اُمت مسلمہ قیامت تک سبق حاصل کرے۔ لیکن حضرتِ والا کے موجودہ شیخ محی السنۃ حضرتِ اقدس مولانا شاہ ابرار الحق صاحب (رحمۃ اللہ علیہ )کا جملہ نقل کرتا ہوں جو آپ نے اپنے بڑے بھائی صاحب سے فرمایا تھا کہ ہم نے جو کتابوں میں پڑھا تھا کہ سات سو آٹھ سو سال پہلے لوگ اپنے شیخ کی کس طرح محبت وخدمت کرتے تھے اس دور میں ہم نے مولانا حکیم اختر صاحب کو دیکھا جنہوں نے اپنے شیخ حضرت پھولپوری کی اسی طرح خدمت کی۔ حضرتِ والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت کو مثنوی رحمۃ اللہ علیہ مولانا روم پڑھایا کرتے تھے اور یہ سلسلہ سترہ سال تک جاری رہا۔ مثنوی پڑھنے کے زمانے ہی میں حضرتِ والا کے قلب پر اشعارِ مثنوی کے عجیب وغریب مطالب ومعانی القاء ہوتے تھے اور حضرتِ والا کبھی کبھی حضرت شیخ پھولپوریرحمۃ اللہ علیہ کو وہ شرح سناتے جو اللہ کی طرف سے حضرت کے قلب کو عطا ہوتی جس کو سن کر حضرت شیخ نہایت مسرور ہوتے اور آبدیدہ ہوجاتے۔ اور ایک بار تو حضرت پر ایسی خاص کیفیت طاری ہوئی کہ فجر کی نماز پڑھ کر مدرسے سے پانچ میل پیدل اپنے شیخ کی خدمت میں پھولپور حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت! مثنوی کے بعض اشعار کی شرح میرے دل میں آئی ہے، اگر اجازت ہو تو تصدیق کے لیے حضرتِ والا کو سنادوں؟فرمایا : سناؤ!حضرت! پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے معمولات ذکر وتلاوت ونوافل ومناجات وغیرہ سب ملتوی کردیے اور مسلسل پانچ گھنٹے دوپہر گیارہ بجے تک حضرت کی درد ناک شرح سنتے رہے اور اشکبار رہے جس پر حضرت یہ شعر پڑھتے ہیں ؎ وہ چشم ناز بھی نظر آتی ہے آج نم اب تیرا کیا خیال ہے اے انتہائے غم اس کے بعد حضرت شیخ نے خوش ہو کر جوش سے فرمایا کہ بتاؤ! آج کیا کھاؤ گے؟ حضرت نے عرض کیا کہ حضرت! جو آپ کھلادیں گے۔حضرتِ والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ اٹھ