مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
عشقِ حقیقی کی آگ سے جس کا سینہ چاک ہوگیا وہ حرص وہوس،عُجب وکبر، حبِّ دنیا وحبِّ جاہ ،حسد وکینہ وغیرہ جملہ رذائل سے پاک ہوگیا۔ اور مثنوی کا یہ شعر بھی حضرتِ والا کا نہایت پسندیدہ ہے ؎ آہ را جز آسماں ہمدم نبود راز را غیر ِ خدا محرم نبود میں ایسے سنّاٹے میں آہ کرتا ہوں جہاں سوائے آسمان کے کوئی میری آہ کا سننے والا نہیں ہوتا اور میری محبت کے راز کا سوائے خدا کے کوئی محرم نہیں ہوتا۔ بچپن میں قرآن شریف پڑھ کر حضرتِ والا اپنے اُستادِ محترم سے اکثر درخواست کرکے مثنوی کے اشعار سنتے جن کی آواز نہایت درد ناک تھی جس سے حضرتِ والا کا دل خدائے تعالیٰ کے لیے اور بے چین ہوجاتا۔ اس کے بعد حضرتِ والا کا تعلقِ ارادات جب حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا تو حضرت کا عشقِ مثنوی اور تیز ہوگیا کیوں کہ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سراپا عشق تھے اور مثنوی کے عاشق تھے۔حضرت نے مثنوی اپنے شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی اور حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حکیم الاُمت مجدّد الملت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھی اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی۔یہ مثنوی کی حضرتِ والا کی عظیم الشان سند ہے۔ حضرتِ والا نے سترہ سال تک دن رات مستقل اپنے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کی۔ اس وقت حضرتِ والا کی عمر اٹھارہ سال تھی اور حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ تقریباً ستّر سال کے تھے۔کیا مبارک جوانی تھی جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھی اور جس کے شب وروز مستقل سترہ سال تک ایک اللہ والے شیخِ کامل کی خدمت وصحبت اور محبتِ اشد پر فدا ہوئے۔ شیخ کے ساتھ اتنی طویل صحبت کی مثال اس دور میں ملنا مشکل ہے۔ حضرت کے وہ تمام حالات اور اپنے شیخ کے ساتھ عشق و جاں