مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کو مضطر اور بے چین کردے گا اور اگر نظر بچالی تو یہ حسرتِ حُسنِ نامعلوم ہوگی، جب دیکھا ہی نہیں تو ہلکی سی حسرت اور ہلکا سا غم ہوگا جو جلد زائل ہوجائے گا اور اس حسرتِ حُسنِ نامعلوم پر قلب کو جو حلاوتِ ایمانی عطا ہوگی، اللہ تعالیٰ کے قرب کی غیر محدود لذت کا جو ادراک ہوگا اس کے سامنے مجموعۂ لذات ِکائنات ہیچ معلوم ہوگا۔ اس کے برعکس حسینوں کے دیکھنے کے غم حُسنِ معلوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت برستی ہے جس سے دل مضطر اور بے چین ہو کر ایک لمحے کو سکون نہیں پائے گا اور زندگی تلخ ہوجائے گی، لہٰذا دونوں غموں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ایک عالم ِرحمت ہے، ایک عالم ِلعنت ہے۔ دونوں غموں میں ایسا فرق ہے جیسے جنّت اور دوزخ میں۔ لہٰذا غضِ بصر کا حکم ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ حسرتِ حُسنِ نامعلوم دے کر شدّتِ غم ِحُسنِ معلوم سے بچالیا۔ جیسے کسی کو مچھر کاٹ لے اور کسی کو سانپ ڈس لے تو جس کو مچھر نے کاٹا ہے وہ شکر کرے گا کہ اللہ نے مجھے سانپ کے ڈسنے سے بچالیا ۔ لہٰذا حسینوں سے نظر بچانے کی حسرتِ حُسنِ نامعلوم مچھر کا کاٹنا ہے اور حسینوں کو دیکھنے کا غمِ حُسنِ معلوم سانپ سے ڈسوانا ہے۔ ۶۔ بدنظری سے بار بار اس حسین کا خیال آتا ہے اور دل میں ہر وقت ایک کشمکش رہتی ہے جس سے دل کمزور ہوجاتا ہے ۔ بد نظری کی نحوست یہ ہے کہ نظرکے ساتھ ساتھ حواسِ خمسہ اور تمام اعضا وجوارح حرکت میں آجاتے ہیں اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ کی تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی نے یہ کی ہے کہ بِاِجَالَۃِ النَّظَرِ بد نظری کرنے والا جو نظر گھما گھما کر حسینوں کو دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہیں اور بِاسْتِعْمَالِ سَائِرِ الْحَوَاسِ اور اس کے تمام حواسِ خمسہ حرام لذت لینے کی کوشش شروع کردیتے ہیں ۔ باصرہ یعنی آنکھ اس حسین کو دیکھنا چاہتی ہے ، سامعہ یعنی کان اس کی بات سننے کی تمنا کرتے ہیں، قوتِ ذائقہ اس کو چکھنے یعنی حرام بوسہ بازی کرنا چاہتی ہے، قوتِ لامسہ اس کو چھونے کی اور قوتِ شامّہ اس حسین کی خوشبو سونگھنے کی حرام آرزو میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تیسری تفسیر ہے بِتَحْرِیْکِ الْجَوَارِحِ بد نظری کرنے والے کے تمام اعضا بھی حرکت میں آجاتے ہیں۔ ہاتھ