مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کے سائے میں آگیا اس کا نفس اَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِ نہیں رہے گا اَمَّارَۃٌ بِالْخَیْرِ ہوجائے گا۔ اسی لیے یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ کے بعد وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْفرمایا کہ جس نے نگاہوں کی حفاظت کرلی وہ امتثالِ امر الہٰیہ کی برکت سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے بچنے کی برکت سے اللہ کی رحمت کے سائے میں آگیا۔ اب اس کی شرم گاہ بھی گناہوں سے محفوظ رہے گی ۔ معلوم ہوا کہ غَضِّ بصر کا انعام حفاظتِ فرج ہے اور اس قضیہ کا عکس کرلیجیے کہ جو نگاہ کی حفاظت نہیں کرے گا اس کی شرم گاہ بھی گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی اور اس پر جو لعنت برس جائے وہ کم ہے۔ ۴۔ حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یوں تو ہر گناہ بدعقلی اور حماقت کی دلیل ہے، جو گناہ کرتا ہے یہ دلیل ہے کہ اس کی عقل میں خرابی ہے کہ اتنے بڑے مالک کو ناراض کررہا ہے جس کے قبضے میں ہماری زندگی اور موت ، تندرستی وبیماری، راحت اور چین ، حسنِ خاتمہ اور سوئےخاتمہ ہے ۔ اگر اس کی عقل صحیح ہوتی تو ہر گز گناہ نہ کرتا لیکن فرماتے ہیں کہ بدنظری تو انتہائی حماقت کا گناہ ہے کہ نہ ملنا نہ ملانا مفت میں اپنے دل کو تڑپانا ۔ دیکھنے سے وہ حُسن مل نہیں جاتا لیکن دل بے چین ہوجاتا ہے اور اس کی یاد میں تڑپتا رہتا ہے۔ اور میرے دل کو اللہ تعالیٰ نے ایک نیا علم عطا فرمایا کہ مسلمان کو دکھ دینا حرام ہے تو جو بدنظری کررہا ہے یہ بھی تو مسلمان ہے، یہ بد نظری کرکے اپنے دل کو دکھ دے رہا ہے ،تڑپارہا ہے، جلا رہا ہے ، لہٰذا جس طرح دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے،اسی طرح اپنے دل کو دکھ پہنچانا ، تڑپانا، کلپانا ، جلانا کیسے جائز ہوگا؟ ۵۔ اب اگر کوئی کہے کہ حسینوں کو دیکھنے سے تو دل کو غم ہوتا ہی ہے لیکن نظر بچانے سے بھی تو غم ہوتا ہے اور دل میں حسرت ہوتی ہے کہ آہ! نہ جانے کیسی شکل رہی ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دیکھنے سے جو غم ہوتا ہے وہ اشدّ ہے اور نہ دیکھنے کا غم بہت ہلکا ہوتا ہے کیوں کہ اگر دیکھ لیا تو علم ہوگیا کہ اس حسین کے نوک پلک ایسے ہیں، آنکھیں ایسی ہیں، ناک ایسی ہے، چہرہ کتابی ہے، تو یہ غمِ حُسنِ معلوم اشدّ ہوگا اور دل