مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
تو ہر قسم کے تصرف کا حق حاصل ہوتا کیوں کہ مالک کو اپنی ملک میں ہر تصرف کا اختیار ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا بندوں کو یہ اختیار نہ دینا دلیل ہے کہ یہ جسم ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور مالک کی امانت میں خیانت جرمِ عظیم ہے لہٰذا جو شخص بدنظری کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ِبصریہ میں خیانت کرتا ہے اور خیانت کرنے والا اللہ تعالیٰ کا دوست نہیں ہوسکتا ۔وَلَنِعْمَ مَا قَالَ الشَّاعِرُ ؎ نظر کے چور کے سر پر نہیں ہے تاجِ ولایت جو متقی نہیں ہوتا اسے ولی نہیں کہتے ۳۔ اور بد نظری کرنے والا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا مورد ہوجاتا ہے ۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہےلَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَ الْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ناظر اور منظور دونوں پر لعنت کرے یعنی جو بدنظری کرے اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو اور جو بد نظری کے لیے اپنے کو پیش کرے، اپنے حُسن کو دوسروں کو دکھائے اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو۔ اگر بدنظری معمولی جرم ہوتا تو سرور ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہو کر ایسی بددعا نہ فرماتے۔ آپ کا بددعا دینا دلیل ہے کہ یہ فعل انتہائی مبغوض ہے۔ اور لعنت کے معنیٰ ہے اللہ کی رحمت سے دوری۔امام راغب اصفہانی نے ’’مفردات القرآن‘‘ میں لعنت کے معنیٰ لکھے ہیں اَلْبُعْدُ عَنِ الرَّحْمَۃِ؎ پس جو شخص اللہ کی رحمت سے دور ہوگیا وہ نفس امّارہ کے شر سے نہیں بچ سکتا ،کیوں کہ نفس کے شر سے وہی بچ سکتا ہے جو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںاِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِنفس کثیرُالْاَمْرِ بِالسُّوْءِ ہے، بہت زیادہ برائی کا حکم کرنے والا ہے ۔ پھر نفس کے شر سے کون بچ سکتا ہے ؟ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہو۔ معلوم ہوا کہ نفس کے شر سے بچنے کا واحد راستہ اللہ کی رحمت کا سایہ ہے کیوں کہ اَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِکا استثنا خود خالق اَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِ نے کیا ہے پس جو اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ------------------------------