مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
حیات کو اپنے قرب کی عظیم الشان تجلیاتسَاعَۃً فَسَاعۃً مُتَصَاعِدًا مُتَزَائِدًا عطا کرنا ہوتا ہے۔ پیغمبر جس اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں دشمنوں کی ایذا رسانیوں سے ان کو ہر لمحہ ایک جدید تجلی ایک جدید ترقی ، ہر لمحہ اعلیٰ سے اعلیٰ تر قرب نصیب ہوتا جاتا ہے کیوں کہ اللہ کے قرب کی کوئی انتہا نہیں ہے، غیر محدود راستہ ہے ، غیر محدود قرب ہے، غیر متناہی ترقیات ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو سَاعَۃً فَسَاعَۃً بڑھاتا رہتا ہے۔اور اولیاء اللہ چوں کہ معصوم نہیں ہوتے اس لیے مخلوق کی دشمنی وایذا رسانی عجب وکبر سے ان کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہے اور ان کی ترقیٔ درجات کا بھی ذریعہ ہے اور ان کے تعلق مع اللہ میں اضافے کا بھی ذریعہ ہے ؎ بڑھ گیا ان سے تعلق اور بھی دشمنیٔ خلق رحمت ہوگئی حضرت مجدد الف ثانی کے ایک خلیفہ نے مجدد صاحب کو لکھا کہ جہاں میں نے خانقاہ بنائی ہے وہاں میرے کچھ دشمن پیدا ہوگئے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کسی دوسری جگہ اپنی خانقاہ کو منتقل کردوں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو لکھا کہ آپ عبادت وذکر وتلاوت کی صرف میٹھی میٹھی غذا کو پسند کرتے ہو اور مخلوق کی اذیت پر صبر کرنے کی نمکین غذا سے بھاگتے ہو۔ غذا دونوں قسم کی ہونی چاہیے۔ بلا واذیت مانگے تو نہیں کیوں کہ دشمن کی ملاقات سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ لِّقَاءِ اَعْدَائِنَالیکن اگر آجائے تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ اسے نمکین غذا سمجھیں البتہ عافیت اور دشمن سے نجات کی دعا کرے یہ بھی عین عبدیت ہے۔ لہٰذا دشمنوں کی مخالفت اور ایذا رسانی سے دین کے خادموں کو گھبرانا نہیں چاہیے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت ہے، مصلحت ہے، تربیت ہے کیوں کہ اگر چاروں طرف معتقدین اور محبین ہی کا ہجوم ہو تو نفس میں بڑائی آجائے ۔ حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ آج ایک خط آیا ہے جس میں لکھنے والے نے مجھے الّو اور