مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
گدھا لکھا ہے ، کتنے لوگ مجھے حکیم الاُمت اور مجدد الملت لکھتے ہیں اگر ہمیشہ سب یہی لکھتے رہیں تو میرے نفس میں بڑائی آجائے۔ لہٰذا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ بعضے بندوں سے کونین بھیج دیتے ہیں جس سے عجب وکبر کا ملیریا اُتر جاتا ہے اور اس کونین سے دولتِ کونین مل جاتی ہے۔ اس لیے جس بستی میں دین کا کام کرو اور کوئی دشمن کھڑا ہوجائے یا کوئی فرنٹ ہو کر بھاگ جائے تو اس کی خوشامد نہ کرو۔ حدیثِ پاک میں ہےنِعْمَ الرَّجُلُ الْفَقِیْہُ فِی الدِّیْنِ اِنِ احْتِیْجَ اِلَیْہِ نَفَعَ وَاِنِ اسْتُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنٰی نَفْسَہٗ؎ دین کا بہترین فقیہ وہ ہے کہ جب کوئی اس سے دین سیکھنے کے لیے احتیاج ظاہر کرے تو اس کو نفع پہنچادے یعنی دین سکھادے اور اگر کوئی فرعون کی طرح منہ بنا کر بھاگ جائے تو وہ بھی اپنے نفس کو مستغنی کرلے۔ ملّا علی قاری نے اَغْنٰی نَفْسَہٗ کی دو شرح کی ہیں:ایک تو یہ کہ اپنے نفس کو اس سے مستغنی کرلیا، اس کے پیچھے پیچھے پھر کر اس کی خوشامد نہیں کرتا کیوں کہ ایسا کرنا اس خادمِ دین کی عزتِ نفس کے بھی خلاف ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح وہ شخص اور خراب ہوجائے گا، اس کا تکبر اور بڑھ جائے گا۔ اور دوسری شرح یہ ہے کہ اپنے نفس کو خلوتوں کی عبادت وتلاوت اور ذکرِ خداوندی سے غنی اور مال دار کرلو۔ لہٰذا کسی دشمن کی مخالفت اور اسبابِ تشویش سے دینی خادموں کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب چاند چودھویں رات کو بدرِ کامل ہوجاتا ہے تو کتّے زیادہ بھونکتے ہیں اور یہ منظر دیکھنا ہو تو کسی گاؤں میں دیکھیے جہاں بجلی کی روشنی نہیں ہوتی اس لیے ساری رات کتّے بھونکتے ہوئے سنائی دیں گے۔ تو مولانا فرماتے ہیں کہ کیا کتّوں کے بھونکنے سے چاند اپنی رفتار کو بدل دیتا ہے۔ اسی طرح اولیاء اللہ جب ترقیاتِ ظاہری وباطنی سے چاند کی طرح کامل ہوجاتے ہیں تو ان کے دشمن اور حاسدین بوجہ حسد کے کتوں کی طرح بھونکنے لگتے ہیں۔ تو جس طرح چاند کتّوں کے بھونکنے سے اپنی رفتار پر قائم رہتا ہے اسی طرح دین کے خادموں کو چاہیے کہ وہ بھی حاسدین کی پروا ------------------------------