مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
نہیں چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں والا انعام ہم جیسے گناہ گاروں کو بھی عطا فرمادیا ۔ چوں کہ یہ بھی نبیوں والا سرکاری کام کررہا ہے،اللہ تعالیٰ کی محبت کو پھیلارہا ہے تو جو نبیوں سے جتنا زیادہ قریب تر ہوگا اتنے ہی زیادہ اس کو نبیوں جیسے حالات پیش آئیں گے، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےاَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً الْاَنْبِیَاءُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ؎ اور آپ نے فرمایا کہ اللہ نے جتنی بلائیں مجھے دیں کسی پیغمبر کو اتنی بلائیں نہیں دی گئیں۔ معلوم ہوا کہ ؎ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے اورایک جدید مضمون اللہ تعالیٰ نے ابھی میرے قلب کو عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی بتادیا تھا کہ فلاں فلاں جومسجدِ نبوی میں آپ کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں صورتاً صحابی نظر آتے ہیں مگر یہ صحابی نہیں ہیں منافقین ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ مدینہ شریف میں سب میرے عاشق نہیں ہیں۔ میرے جاں نثاروں ، وفاداروں اور سچے عاشقوں کے درمیان بدترین دشمن بھی چھپے ہوئے ہیں جو ہماری مصیبت پر خوش ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلبِ مبارک کس قدر مشوش ہوا ہوگا لیکن آپ کی دینی مصلحت اور کمالِ فراستِ نبوت نے ان کو برداشت فرمایا۔ لہٰذا صرف عاشقوں میں رہنے کا ذوق خلافِ ذوقِ نبوت ہے اور ذوقِ تربیتِ الہٰیہ کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہیں اگر چاہتے تو عزرائیل علیہ السلام کو بھیج کر سارے منافقین کی روح قبض کرلیتے کہ میرا پیغمبر ان نالائقوں کی وجہ سے تشویش میں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے تشویش کوقائم رکھا۔ معلوم ہوا کہ تشویش میں رکھنابھی ایک تکوینی راز ہے اور اس سے پیغمبروں کی ترقیٔ درجات مقصود ہوتی ہے ۔ اللہ نبیوں کو دشمن اس لیے نہیں دیتا کہ نعوذ باللہ! وہ عجب وکبر سے محفوظ رہیں کیوں کہ پیغمبر معصوم ہوتے ہیں ان میں عجب وکبر پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ انبیاء سے گناہ کا صدور محال ہے لہٰذا وَجَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا کا مقصد انبیاء علیہم السلام کے ہر لمحۂ ------------------------------