مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
بھلا ان کا منہ تھا مرے منہ کو آتے یہ دشمن ان ہی کے ابھارے ہوئے ہیں تیرہ سال مکہ مکرمہ میں آپ کو کس قدر ستایا گیا ۔ اونٹ کی اوجھڑی سجدے میں کافروں نے آپ کی گردن مبارک پر رکھ دی اور کافر اتنا ہنسے کہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے کے اوپر گر گئے۔ طائف کے بازار میں آپ کو پتھر مارے گئے، گالیاں دی گئیں، پاگل، مجنون اور جادوگر کہا گیا یہاں تک کہ مکہ شریف سے آپ کو ہجرت کرنا پڑی لیکن مدینہ شریف میں بھی کیسے کیسے غم آپ نے برداشت کیے اور وہاں بھی کفار نے آپ کو سکون کا سانس نہ لینے دیا یہاں تک کہ غم اُٹھاتے اور مجاہدہ فرماتے آپ بوڑھے ہوگئے تو بوڑھے پیغمبر پر اللہ تعالیٰ کو کتنا رحم آیا ہوگا لیکن اس کے باوجود مدینہ پاک میں آپ کے لیے سکونِ قلب سے دین کا کام کرنے کا انتظام نہیں کیا گیا۔ آئے دن جہاد ہوتا رہا۔ روایت میں ہے کہ آپ جہاد سے واپس تشریف لاتے تھے اور اسلحہ اُتار کر زمین پررکھنے نہ پاتے تھے کہ دوسرے جہاد کی خبر آجاتی تھی۔ ساری زندگی جہاد میں رہنا کتنا بڑا مجاہدہ اور کتنی بڑی تشویش ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیاروں کے لیے یہی پسند ہے کہ ہمیشہ مجاہدہ میں رہو اور مشاہدہ میں رہو۔ جتنا زبردست مجاہدہ ہوگا اتنا ہی زبردست مشاہدہ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ دشمنوں کا وجود اللہ تعالیٰ نے تکویناً جب پیغمبروں کے لیے مفید بنایا اور تشویشِ قلب اور بے سکونی کے ساتھ دین کی خدمت جب پیغمبروں کے لیے مقدر فرمائی تو اولیاء اللہ کو غم اور تشویش اور دشمنوں کی مخالفت کیوں نہ پیش آئے گی کیوں کہ ولایت تابعِ نبوت ہوتی ہے۔ جو جتنا زیادہ تابع ِنبوت ہوگا اتنی ہی زیادہ اس کی ولایت قوی ہوگی۔ اعلیٰ درجے کا ولی وہی ہے جو اعلیٰ درجے کا متبعِ نبوت ہو۔ پیغمبروں کو جو مراحل ومنازل پیش آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تربیت کے جتنے انواع واقسام واطوار پیغمبروں کے لیے ہیں کمًّا وکیفاً ان کا کچھ حصہ اولیاء اللہ کو بھی دیا جاتا ہے البتہ وہ بلاومصیبت انبیاء کے درجہ کی نہیں ہوتی ، کم درجہ کی ہوتی ہے کیوں کہ اتنی بڑی بلا اولیا ء اللہ برداشت نہیں کرسکتے مگر کچھ مشابہت تو ہوتی ہے لہٰذا دشمن کے وجود سے گھبرانا