مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
پر وہ رحمت نازل فرما کہ جس سے میں گناہوں کو چھوڑ دوں وَلَاتُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ؎ اور مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے بدبخت نہ ہونے دیجیے، معلوم ہوا کہ گناہوں میں شقاوت اور بدبختی کی خاصیت ہے۔ اس لیے گناہوں کو جلد چھوڑ دینا چاہیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گناہوں کی نحوست سے شقاوت مقدّر ہوجائے۔ اس دعا میںدَرْکِ الشَّقَاءِ سے پناہ مانگی گئی تاکہ ہمارا مستقبل شقاوت سے محفوظ ہوجائے۔ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ میں ماضی کی بدنصیبی سے پناہ مانگی جارہی ہے کہ اگر ماضی میں آپ نے میری تقدیر میں کوئی شقاوت اور سوئے قضا لکھ دی ہو تو اس کو حسنِ قضا سے تبدیل فرما دیجیے۔ جو فیصلے میرے حق میں برے ہیں ان کو اچھے فیصلوں سے تبدیل فرمادیجیے۔ یہاں سُوْء کی نسبت قاضی کی طرف نہیں مقضی کی طرف ہے اللہ کا کوئی فیصلہسُوْء ہوہی نہیں سکتا لیکن جس کے خلاف وہ فیصلہ ہے اس کے حق میں برا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت سے خالی نہیں،اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت است اگر قضا اور فیصلے کی تبدیلی اللہ کو منظور نہ ہوتی اور سوئےقضا کا حُسن ِقضا سے مبدّل ہونا محال ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا نہ سکھاتے ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قضائے الٰہی کو تبدیل کرنا محال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے لیے محال ہے اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔وہ حاکمِ مطلق ہیں جب چاہیں اپنے فیصلے کو تبدیل فرماسکتے ہیں۔ اسی کو مولانا رومی عاشقانہ انداز میں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! اگر میری قسمت میں کوئی سوئے قضا آپ نے لکھ دی ہو تو اس سوئےقضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرمادیجیے کیوں کہ قضا آپ کی محکوم ہے آپ پر حاکم نہیں ہوسکتی، آپ کا فیصلہ آپ پر حکومت نہیں کرسکتا، آپ کے فیصلوں کو آپ پر بالادستی حاصل نہیں بلکہ آپ کو اپنے فیصلوں پر بالا دستی حاصل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ فرمایا کہ میں قیامت کے دن کا مالک ہوں۔ قیامت کے دن میری حیثیت قاضی اور جج کی نہیں ہوگی قاضی اور جج تو ------------------------------