مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
جب چھ کے چھ چور پھانسی کے تختے پر کھڑے ہوگئے تو وہ چور جس نے بادشاہ کو دیکھا تھا اس نے پہچان لیا کہ یہ وہی بادشاہ ہے جو رات کو ہمارے ساتھ تھا۔ وہ تختہ دار سے چلّایا کہ حضور! کچھ دیر کو ہماری جانوں کو امان دی جائے ، میں آپ سے تنہائی میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا: ٹھیک ہے تھوڑی دیر کے لیے پھانسی کو موقوف کردو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔ چور نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ؎ ہر یکے خاصیتے خود را نمود اے بادشاہ! ہم میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا ہنر دکھادیا لیکن ؎ ایں ہنر ہاجملہ بدبختی فزود ہمارے سب کے سب ہُنر جن پر ہم کو ناز تھا انہوں نے ہماری بدبختی کو اور بڑھادیا کہ آج ہم تختہ دار پر ہیں اے بادشاہ ! میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ جب مجرموں کو تختۂدار پر چڑھادیا جاتا ہے اس وقت غایتِ کرم سے اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی سے نجات پاجاتے ہیں لہٰذا اپنے ہنر کا ظہور فرمائیے تاکہ ہماری جان خلاصی پاجائے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ سلطان محمود نے کہا کہ تمہارے کمالاتِ ہنر نے تو تمہاری گردنوں کو مبتلاقہر کردیا تھا لیکن یہ شخص جو سلطان کا عارف تھا اس کی چشمِ سلطاں شناس کے صدقے میں، میں تم سب کو رہا کرتا ہوں۔ اس قصے کو بیان فرما کر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے ہنر پر ناز کررہا ہے، بڑے بڑے اہلِ ہنر اپنی بدمستیوں میں مست اور خدا سے غافل ہیں لیکن قیامت کے دن ان کے یہ ہنر کچھ کام نہ آئیں گے اور ان کو مبتلائے قہر وعذاب کردیں گے لیکن ؎ جز مگر خاصیتِ آں خوش حواس کہ بشب بود چشمِ او سلطاں شناس جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچان لیا،نگاہِ معرفت پیدا کرلی قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے اور ان کی سفارش گناہ گاروں کے حق میں قبول کی