مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اتنی ہی تیزی سے وہ اللہ کا راستہ طےکرتا ہے جیسے بعض جہاز چھ گھنٹے میں جدہ پہنچتے ہیں اور بعضے تین گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں بوجہ زیادہ اسٹیم کے۔ جس کی احسانی کیفیت قوی ہوتی ہے اس کی رفتارِ سلوک میں بہت تیزی آجاتی ہے وہ بہت جلد اللہ تک پہنچتا ہے۔ اسی لیے بزرگوں نے فرمایا کہ اپنی تنہائیوں کی عبادتوں سے لاکھ درجہ بہتر سمجھو کہ کسی صاحبِ نسبت کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ وہاں تمہیں پکی پکائی مل جائے گی۔مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر سیب خریدنا ہو تو بازار اور منڈی سے مت خرید وسیب کے باغ میں چلے جاؤ ، بازار میں تو باسی اور گلا سڑا سیب ملے گا اور بازار کے گرد وغبار اور دھوپ کی گرمی سے الگ سابقہ پڑے گا اور باغ میں تازہ تازہ سیب پاجاؤ گے۔ تو اللہ والوں کے پاس بیٹھنا گویا سیب کے باغ میں بیٹھنا ہے اگر ان کے یہاں سوتے بھی رہو گے تو ان کی نسبت مع اللہ کے سیب کی خوشبو ملتی رہے گی۔ میرے شیخ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رات کی رانی کے نیچے چار پائی بچھا کر سوجائے مگر صبح جب اُٹھے گا تو دماغ تازہ ملے گا۔ اسی طرح اولیاء اللہ کی خانقاہوں میں اگر کوئی سو بھی جائے، تہجد بھی نہ پڑھے تو بھی قلب میں نور پہنچ جائے گا۔سائنس دانوں کے نزدیک تو انسانوں کی سانس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے لیکن انبیاء علیہم السلام کی سانس میں اور اولیاء اللہ کی سانس میں صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ نہیں ہوتی ان کے پاکیزہ انوار کو سائنس دان کیا جانیں ۔ انفاسِ نبوت صحابہ ساز ہوتے ہیں اور انفاسِ اولیاء اولیاء ساز ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے قلب میں اللہ کا نور بھرا ہوا ہے۔ جلے بھنے دل سے جو سانس نکلتی ہے اس میں وہ انوار شامل ہوتے ہیں جو دوسرے دلوں میں نفوذ کرجاتے ہیں۔ لیکن صحبتِ اہل اللہ کے باوجود جن لوگوں کے سلوک میں دیر ہورہی ہے، وصول الی اللہ نصیب نہیں ہورہا ہے وہ کسی نہ کسی گناہ میں مبتلا ہیں۔ ذکر بھی کرتے ہیں لیکن ذکر سے جہاں نور پیدا ہوا پھر بدنظری کرکے یا کوئی گناہ کرکے اسے بجھادیا۔مولانا رومی نے اس کی عجیب مثال دی ہے ایک حکایت سے۔ دو چور ایک گھر میں داخل ہوئے ۔ آٹھ سو سال پہلے کی حکایت بیان فرمارہے ہیں جب دو چقماق پتھر کو آپس میں رگڑ کر