مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اندھیرے میں روشنی کی جاتی تھی ۔ دونوں میں آپس میں یہ طے ہوا کہ ایک تو مال لوٹے گا اور دوسرا یہ کام کرے گا کہ مالکِ مکان جب روشنی کے لیے پتھر رگڑے گا تو تم اس روشنی پر اُنگلی رکھتے رہنا تاکہ روشنی نہ ہونے پائے اور مالک مکان دیکھنے نہ پائے۔چناں چہ مالکِ مکان کو شبہ ہوا کہ گھر میں چور آگئے ہیں اور چوری ہورہی ہے تو اس نے چقماق رگڑا کہ روشنی ہو تو دوسرے چور نے اس پر اُنگلی رکھ دی، جب وہ پتھر کو رگڑ کر روشنی کرنا چاہتا تھا چور اس پر اُنگلی رکھ دیتا تھا اور روشنی بجھ جاتی تھی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ شیطان بھی اسی طرح بعضے سالکین کے نور پر اُنگلیاں رکھ رہا ہے، جب سالک نے اللہ اللہ کیا، تلاوت کی، شیطان نے فوراً اس کی آنکھوں سے کسی عورت کو دکھادیا، کسی لڑکے کے عشق میں مبتلا کردیا، دل میں گندے خیالات میں مبتلا کردیا۔ لہٰذا گناہوں کی وجہ سے اور مستقل نافرمانی کے سبب عمر گزر گئی اور یہ شخص صاحب ِنسبت نہ ہوسکا۔ حالاں کہ رات دن خانقاہوں میں ہے، اولیاء اللہ کے جھرمٹ میں رہتا ہے، ابدال اور اقاطیب کے ساتھ رہتا ہے، ذکر وتلاوت بھی کرتا ہے لیکن گناہوں سے نہیں بچتا اس لیے اس کا نورتام نہیں ہوتا اور یہ محروم رہ جاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص چاہے کہ اس کا نور تام ہوجائے اور وہ اللہ والا ہوجائے وہ گناہ سے ایسے بچے جیسے کسی خوبصورت سانپ سے بچتا ہے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ گناہ سے اس لیے بھی بچو کہ گناہ ہم کو محبوبِ حقیقی تعالیٰ شانہٗ سے دور کرتا ہے۔ مولانا رومی نے کتنے درد سے یہ دعا مانگی ہے کہ ؎ یارِ شب را روز مہجوری مدہ جن کو اے اللہ! آپ نے راتوں میں اپنی یاد کی توفیق دی ان کو جدائی کا دن نہ دکھائیے یعنی رات میں جنہوں نے اللہ اللہ کیا، تہجد پڑھی، آپ کو یاد کیا، اے اللہ! دن میں ان کو گناہ سے بچایئے۔ ایسا نہ ہو کہ دن میں ہم آپ کی عظمتوں کے خلاف اپنی بندگی کو استعمال کرلیں، اپنی نگاہوں سے آپ کی مرضی کے خلاف دیکھ لیں۔ کیوں کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت کا حق ہے اور گناہ سے بچنا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دونوں حق ادا کرلیجیے اور ولی اللہ بن جائیے۔