مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ساتھ کس لیے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو سیاحی مقصود ہے کہ مختلف شہروں کو دیکھیں گے اور مختلف دسترخوانوں کا ذائقہ چکھیں گے تو وہ اللہ کا مرید نہیں ہے وہ تو مریدِ غذا ہے، مریدِچٹخارہ ہے، مریدِسیاحی ہے۔اوراللہ پاک فرماتے ہیںیُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ؎ قرآنِ پاک کی آیت ہے کہ میں ان ہی کو ملتا ہوں جن کے دل میں میں مراد ہوتا ہوں،وہ مجھ کو پیار کرتے ہیں میں ان کو پیار کرتا ہوں ؎ دونوں جانب سے اشارے ہوچکے ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے تو دل میں صرف اللہ مراد ہو پھر صاحبِ نسبت شیخ کے پاس بیٹھو تو اس کی کیفیتِ احسانی ، ایمان ویقین وحضور مع الحق آپ کے دل میں منتقل ہوجائے گا۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے یہ احسانی کیفیت ملنے سے پھر آپ کی دو رکعات ایک لاکھ رکعات کے برابر ہوجائیں گی۔ اور اپنے بزرگوں کے بارے میں یہی حُسنِ ظن رکھیں کہ ان کی دو رکعات ہماری ایک لاکھ رکعات سے افضل ہیں، ان کا ایک سجدہ ہمارے لاکھ سجدے سے افضل ہے، ان کا ایک اللہ کہنا ہمارے ایک لاکھ اللہ کہنے سے افضل ہے۔ مثال کے طور پرفرض کرلیں کہ اللہ تعالیٰ تھوڑی دیر کے لیے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دنیا میں بھیج دیں اور ان کی مجلس میں اس اُمت کے تمام صحابہ اور اُممِ سابقہ کے تمام صحابہ اور اس اُمت کے تمام اکابر اولیاء اللہ اور اُمم ِسابقہ کے تمام اولیاء اللہ موجود ہوں اور حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار اللہ کہیں اور تمام صحابہ اور اولیاء اللہ ایک بار اللہ کہیں تو بتائیے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اللہ سب سے بڑھ جائے گا یانہیں؟اس کی وجہ کیا ہے؟ کیوں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کیفیتِ احسانی حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں۔ معلوم ہوا کہ کیفیتِ احسانیہ اصل چیز ہے۔ جس کی کیفیتِ احسانی جتنی قوی ہوتی ہے اسی اعتبار سے اس کا عمل مقبول ہوتا ہے اور جس کو یہ کیفیت جتنی زیادہ حاصل ہوتی ہے ------------------------------