مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
میں سے ہیں، ترجمان السنۃ میں فرماتے ہیں کہ لَااِلٰہَ کی تلوار اتنی تیز ہے کہ ساتوں آسمان پار کرکے عرشِ اعظم تک جاتی ہے ۔ اگر وہاں بھی اللہ کو نہ پاتی تو عرشِ اعظم سے آگے بڑھ جاتی لیکن وہاں تجلیاتِ الہٰیہ دیکھ کر ٹھہر جاتی ہے ؎ نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں کے پار ہو جائے مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہو جائے ترے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح وبیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کہتے وقت یہ مراقبہ کریں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ ساتوں آسمان پار کرکے براہِ راست اللہ تعالیٰ سے ملاقات کررہی ہے اور یہ کوئی جاہلانہ تصوف نہیں مدلل بالحدیث ہے۔ فرمانِ نبوت کے مطابق تصوف کو مدلّل پیش کرتا ہوں۔ جو تصوف قرآن وحدیث سے مدلّل نہ ہو وہ تصوف ہی نہیں۔مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیںلَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ لَیْسَ لَھَا حِجَابٌ دُوْنَ اللہِ؎ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہْاور اللہ میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ یعنی لَااِلٰہَ اِلَّا اللہْ ساتوں آسمان پار کرکے عرشِ اعظم ہی تک نہیں پہنچتی ربِّ عرشِ اعظم سے ملتی ہے ؎ اسی حسرت میں جئے اور مرے ہم بے پردہ نظارہ ہو کبھی دیدۂ سر سے دیدۂ دل سے تو اللہ والوں کو نظارہ نصیب ہوتا ہی ہے مگر دل بے تاب کی تمنا ہے کہ دیدۂ سر سے بھی نظارہ ہو۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے دلِ بے تاب کی ضد ہے ابھی ہوتی یہیں ہوتی ------------------------------