مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
حُسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے یہ میرا انتظام تھا کہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کے ایک طبقے کو وجود بخشنا تھا کیوں کہ بغیر منعم علیہم کے انسان صراطِ مستقیم نہیں پاسکتا تھا لہٰذا منعم علیہم کے چار طبقے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ؎نبیین ، صدیقین اور صالحین کو تو امت نے دیکھ لیا تھا لیکن اگر شہید نہ ہوتے تو مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کا ایک اہم طبقہ وجود میں نہ آتا اور کفار قرآن پاک کی صداقت پر اعتراض کرتے کہ شہداء کا وہ طبقہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کہاں ہے جس کا قرآنِ پاک میں اعلان کیا گیا تھا ،لہٰذا اللہ تعالیٰ نے شہادت دے کر اس طبقے کا وعدہ پورا کردیا۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ جب اونٹوں پر شہیدوں کی لاشیں آرہی تھیں تو مدینہ کی خواتین صحابیات پوچھتی تھیں کہ یہ کن کی لاشیں ہیں۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ شہداء کی لاشیں ہیں تو ان کے منہ سے نکل گیا وَ یَتَّخِذَاللہُ مِنۡکُمُ الشُّہَدَآءَکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس امت میں شہید بھی پیدا کردے۔اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جملہ پسند فرمایا اور قرآنِ پاک میں نازل فرمادیا لیکناَلشُّھَدَاءُسے الف لام تخصیص کا ہٹادیا اور آیت یوں نازل فرمائی وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ،شُھَدَاءَ نکرہ نازل کیا کیوں کہ اگراَلشُّھَدَاءُ نازل ہوتا تو پھر صرف احد کے شہید ہی شہید کہلاتے ، شہادت کے لیے وہی خاص ہوجاتے،کیوں کہ الف لام تخصیص کے لیے آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو قیامت تک شہادت کا دروازہ کھولنا تھا اس لیےشُھَدَاءَ نازل فرمایا تاکہ قیامت تک شہید ہوتے رہیں اور قیامت تک اس امت کو شہیدوں کی ایک جماعت مل جائے۔ ان شہیدوں نے اپنی جان دے کر ہم کو وفاداری کا سبق دے دیا۔ جب اللہ تعالیٰ کبھی مجھے احد کے دامن میں حاضری کا شرف دیتا ہے تو میں ان شہیدوں کے صدقے میں ایک دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ! ان شہداء نے آپ پر جان دے دی، اپنا ------------------------------