مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
جان دے دیتے ہیں، خونِ شہادت قبول کرلیتے ہیں مگر اللہ کو نہیں چھوڑتے کیوں کہ مصیبت کے وقت ہی امتحان ہوتا ہے اور امتحان کے وقت مخلص اور منافق کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے۔ مخلص اللہ پر جان دے دیتا ہے اور منافق اللہ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے وَلِیَعْلَمَ اللہُ کی تفسیر میں حضرت حکیم الاُمت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں بین القوسین یہ الفاظ بڑھادیے (تاکہ ظاہری طور پر بھی)اللہ کا علم مخلوق پر ظاہر ہوجائے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ماضی حال ومستقبل پر محیط ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو صحابہ کے کمالِ ایمان ویقین وعشق ومحبت کا تو علم تھا ہی لیکن اپنے علمِ مخفی کو مخلوق پر ظاہر کرنا تھا اور اپنے عاشقوں کا ساری کائنات میں ڈنکا پٹوانا تھا کہ میرے عاشق ایسے ہوتے ہیں جو مجھ پر اپنی جانوں کو فدا کردیتے ہیں ؎ جان دے دی میں نے ان کے نام پر عشق نے سوچا نہ کچھ انجام پر اور صحابہ کے خونِ شہادت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کی تاریخ لکھوادی۔ جس عظمت کو لکھنے سے سات سمندر اور ان سمندروں کے مثل اور سارے دنیا کے درختوں کے قلم قاصر تھے اور احد کے دامن میں ستّر شہیدوں کے جسمِ مبارک سے بزبانِ حال یہ اشعار نشر ہورہے تھے ؎ ان کے کوچے سے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے ستر شہیدوں کے جنازوں کی نماز سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی،جن کا جنازہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائیں اس سے بڑی اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے۔ آگےحق تعالیٰ ارشادفرماتے ہیںوَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؎جنگِ احد میں یہ جو شہادت ہوئی ہے یہ میرا انتظام تھا کہ تم میں سے بعضوں کو شہید بنانا تھا ؎ ------------------------------