مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اس حدیث سے یہ بات مفہوم ہورہی ہے کہ اﷲ کی محبت مستغنی ہے اعمالِ نافلہ اور التزامِ طاعاتِ نافلہ سے لِاَنَّ الْاَعْرَابِیَّ نَفَاھَا کیوں کہ اعرابی نے کبیر عمل کی نفی کردی کہ میرے پاس بڑے بڑے اعمال نہیں ہیں لیکن وَلٰکِنْ حُبَّ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ کہہ کر اَثْبَتَ الْحُبَّ اس نے اپنی محبت کو ثابت کردیا اور لٰکِنْ کا استثنا کبیر عمل کے ساتھ ہے جس سے معلوم ہوا کہ محبت خود ایک عظیم الشان عمل ہے۔ کبیر عمل کے مقابلہ میں صحابی نے اپنے قلب کا عمل پیش کیا کہ میرے پاس جسم کا عمل تو کم ہے، نوافل و تہجد و تلاوت و اشراق و چاشت میرے پاس نہیں ہیں لیکن میرے قلب میں ایک بہت بڑا عمل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ مجھے اﷲ ورسول سے محبت ہے وَاَقَرَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذَالِکَ؎ اور آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس کی محبت کو تسلیم فرمایا اور عمل کی قید نہیں لگائی کہ تم اعمال میں تو کمزور ہو پھر کہاں کے عاشق بنتے ہو۔ اگر آپ سکوت بھی فرماتے تو بھی اس کی محبت ثابت ہوجاتی کیوں کہ نبی کے سکوت سے بھی مسئلہ بنتا ہے کیوں کہ نبی کسی نامناسب بات پر خاموش نہیں رہ سکتا لہٰذا آپ اس کی محبت کی تردید فرمادیتے بلکہ اس کے برعکس یہاں تو آپ نے اس کی محبت کو تسلیم فرمایا اور ارشاد فرمایا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمی جنت میں اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔ اگر بڑے بڑے اعمال کے بغیر صرف محبت سے جنت میں اہل اﷲ کی صحبت نہ ملتی تو آپ کبھی یہ جملہ نہ ارشاد فرماتے اور یہ بشارت آپ نے اس وقت دی جب اس صحابی نے عمل کبیر کی نفی کی کہ میرے پاس کوئی بڑے بڑے اعمال نہیں ہیں لیکن ایک عمل ہے دل کا کہ میں اﷲ ورسول سے شدید محبت رکھتا ہوں۔ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ بشارت دینا کہ ہر شخص اُس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے دلیل ہے اس بات کی کہ محبت اتنی بڑی نعمت ہے جو محبوب کا ساتھ نصیب کرادیتی ہے۔ اگر علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ بدون نقلِ حدیث کے یہ فیصلہ کرتے تو مجھے اس کا یقین نہ آتا لیکن فرماتے ہیں کہ یہ فیصلہ تو یہ حدیثِ پاک کررہی ہے ، یہ حدیث خود ------------------------------