مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
پیر تک بجلی گر گئی اور دل میں یہ حسرت پیدا ہوئی کہ کاش! میں اس کو حاصل کرلیتا اگر میرے پاس سلطنتِ بلخ ہوتی اور میں سلطانِ بلخ ہوتا تو سلطنت کے بدلے میں اس کو حاصل کرلیتا۔ جیسے ایک شخص نے اپنے معشوق سے کہا ؎ اگر اے ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را بہ خال ہندوت بخشم سمرقند و بخارا را اے شیراز کے معشوق!اگر تو میرے دل کو خوش کردے تو تیرے چہرہ کے ایک تل کے بدلہ میں میں سمرقند و بخارا دے دوں گا۔ اس وقت کے بادشاہ نے اس شخص کو گرفتار کرا لیا کہ میں نے سمرقند اور بخارا بڑی محنت سے حاصل کیا ہے، ہزاروں شہادتیں ہوئی ہیں اور تو اپنے معشوق کے تل پر مفت میں دے رہا ہے جیسے ایک شخص ایک حلوائی کی دکان پر گیا جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا لیکن دوکان پر جاکر اس نے ہاتھ اُٹھائے کہ اے خدا! اس حلوائی کی دوکان پر جتنی مٹھائی ہے سب کا ثواب میرے دادا کو پہنچے۔ جب سے یہ مثل مشہور ہوگئی کہ حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ۔ لیکن اس حسنِ مجازی کی فنائیت دیکھیے کہ جب اس معشوق کی عمر زیادہ ہوگئی، دانت منہ سے غائب ہوگئے، گال پچک گئے، آنکھوں پر گیارہ نمبر کا چشمہ لگ گیااور تمام اعضاء بگڑگئے، اس وقت اس معشوق نے سوچا کہ چلو آج اپنے عاشق سے سمرقند و بخارا لے آئیں کیوں کہ آج کل غریبی بھی ہے اور قرضہ بھی لد گیا ہے لہٰذا اس عاشق کے پاس چلو جو سمرقند و بخارا دے رہا تھا۔ میں اس سے کہوں گا کہ بھائی! تو دونوں نہ دے تو سمرقند ہی دے دے یا سمرقند نہ دے تو بخارا ہی دے دے۔کیوں کہ اس وقت میرا حسن زیادہ تھا تو دو ملک دے رہا تھا اب ایک ہی دے دے۔ جب اس نے جاکر یہ کہا کہ آپ دونوں ملکوں کے بجائے صرف ایک دے دیں کیوں کہ میں مقروض ہوگیا ہوں تو اس نے کہا کہ تمہارے حسن کا جغرافیہ ہی بدل گیا ہے لہٰذا اب میرے عشق کی تاریخ بھی بدل گئی ؎ اُدھر جغرافیہ بدلا اِدھر تاریخ بھی بدلی نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی