مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ! سنو! اس وقت میری روح ہفت افلاک سے آگے غایتِ قرب ِخداوندی سے مشرف تھی ۔ آں تجلی آں زماں حق می نمود اندریں تن شمۂ ہوشے نبود اس وقت میری روح ایسی قوی تجلّی کا مشاہدہ کررہی تھی کہ میرے عناصر ِبدن ہوش وحواس کو قابو میں نہ رکھ سکے۔ دید جانم آں تجلی آں زماں جبرئیلے را تحمل نیست زاں میری روح وہ تجلیاتِ خداوندی دیکھ رہی تھی کہ جس کا تحمل جبرئیل علیہ السلام بھی نہیں کرسکتے۔ جان ما چوں لذت حق را چشید عقل ما در عائشہ شد نا رسید میری روح اس وقت تجلیاتِ قرب کی ایسی لذت چکھ رہی تھی کہ میرے عقل وہوش عائشہ کو پہچاننے سے قاصر ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاماتِ قرب کا کیا کہنا ہے کہ آپ تو سید الانبیاء ہیں اس امّت کے غلاموں میں یہ شان ہے کہ میرے مرشد شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کئی کئی گھنٹے عبادت کرتے تھے، ایک بار میرے پیر بھائی ماسٹر عین الحق صاحب حضرتِ والا کی خدمت میں ایک ضروری کاغذ پر دستخط کرانے کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت! اس کاغذ پر دستخط کردیجیے۔ حضرت رات کے تین بجے کے اٹھے ہوئے، تہجد کی بارہ رکعات اور سجدہ میں دیر تک رونا پھر بارہ تسبیحات پھر فجر کی نماز کے بعد تلاوت ، مناجاتِ مقبول قصیدہ بردہ شریف اور اللہ کے نام میں مست، میرے شیخ کی عبادت عاشقانہ عبادت تھی زاہدانہ عبادت نہیں تھی، آہ وفغاں کے ساتھ عبادت کرتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کئی وقت کا بھوکا کباب بریانی کھارہا ہے اور ہر دس بیس آیت کے بعد اللہ کا نعرہ اس زور سے مارتے تھے کہ مسجد ہل جاتی تھی۔